شافعی سے متنفر ہوتا ہوں اور نہ مجھے علم و فضل پر کوئی غرور ہے
تلاشِ فخر ندارم بعار سو گندست
زگل شگفتہ نگردم بخار سو گندست
چراغ عاریتی تیرگی زیادہ کند
بروشنائی شبہائے تار سوگندست
میرے عربی و فارسی رسائل موجود ہیں، ان کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی معلوم ہو سکتی ہے کہ مسائلِ دین اور ادلہ شرع کی تحریر و تقریر کے اعتبار سے ان کے اور معاصرین کی کتابوں کے درمیان کس قدر واضح فرق ہے اور کون کتاب و سنت بلکہ فقہِ ملت پر زیادہ عبور رکھتا ہے۔ وَلٰكِنْ مَفَاسِدُ الْجَهْلِ وَالتَّعَصُّبِ كَثِيْرَةٌ لَا تُحْصٰي وَالْمُعَاصَرَةُ اَصْلُ الْمُنَافَرَةِ
اندازِ بیاں اور:
میں نے عربی، فارسی اور اُردو میں مطول و مختصر بے شمار دینی کتابیں تصنیف کی ہیں، اگرچہ ان کے ابواب، فصول اور مطالب علماء راسخین و محققینِ سلف و خلف سے منقول و مأثور ہیں۔ لیکن ہر کتاب و رسالہ میں طرزِ بیان اور ترتیب مقاصد و مواقفِ جدید ہے اور پھر اس وصف و خوبی کے ساتھ یہ بیان ہم عصر علماء کے رسائل و مؤلفات میں شاید ہی نظر آئے۔ پھر ان میں سے بعض کتابیں بالکل جدید ہیں۔ جیسے ’’التاج المکلل‘‘ اور ’’رسالہ یقظہ‘‘ وغیرہ۔
اُردو و فارسی کے اکثر رسائل میں دوسرے لوگوں کی عبارتیں نقل کرتے وقت میں نے دو اُمور کا بطورِ خاص خیال رکھا ہے۔ ایک یہ کہ جس کی وہ عبارت ہو اس کا نام لکھا جائے۔ میں کسی عالم کی تحقیق کو تدلیساً یا تلبیساً اپنی طرف منسوب کرنا خیانت سمجھتا
|