Maktaba Wahhabi

225 - 384
کمال عار محسوس کرتا تھا کہ جس کا نان و نفقہ مجھ پر واجب ہے، اس کا حقِ شرعی تو ادا نہ کروں، بلکہ اس کے مال و متاع کو بغیر کسی استحقاق کے اپنے نفس پر صرف کروں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نیت کی برکت سے مجھے میری بیوی اور بیوی کے والد سے زیادہ تونگری بخشی اور اپنے سوا کسی کا محتاج، دست نگر اور مستمند نہ کیا۔ ولله الحمد والمنة کس روز تہمتیں نہ تراشا کئے عدو: جب رئیسہ نے مجھ سے نکاح کیا تو اہل دنیا کے نزدیک یہ نکاحِ ثانی بڑا عیب بن گیا۔ اگرچہ اسے عیب قرار دینے سے ایمان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ارکانِ ریاست میں سے اکثر لوگوں پر اس معاملہ کا وقوع انتہائی ناگوار اور گراں گزرا۔ وجہ یہ تھی کہ بیگم صاحبہ نے مجھ سے ریاست کے کام میں مدد لینا شروع کی۔ اور مجھ پر کلی اعتماد کیا۔ میں نے بھی چار و ناچار اپنی تمام فکر و ہمت کو ان کی خیرخواہی میں صرف کر دیا۔ اور کسی کی خوشی و نا خوشی سے کام نہ رکھا۔ کیونکہ اگر میں صرف ان کا ملازم ہی ہوتا جیسا کہ اس قرابت سے قبل ملازم، ریاست تھا۔ پھر بھی مجھ پر بحکمِ خدا و رسول ان کی امانت، دیانت اور خیر سگالی کی پاسداری واجب تھی، چنانچہ جب تک ملازم تھا بحمدہٖ تعالیٰ اسی طرح عمر بسر کی اور اب تو اس قرابت کی وجہ سے ان کا کام کرنا اور لوگوں سے بحسنِ امانت و دیانت برتاؤ رکھنا اور بھی مؤکد تر ہو گیا ہے۔ اگر یہ طریقہ اختیار نہ کرتا تو ان کا خائن و غاصب اور خدا کا ناشکر گزار اور گناہ گار ٹھہرتا اور دونوں جہانوں میں رو سیاہی کے سوا اور کیا حاصل ہوتا؟ ہاں لوگوں کے ناراض رہنے کی آفت نہ آتی۔ بلکہ اگر دوسرے لوگوں کا سا طریقہ اختیار کرتا تو مجھے بھی بہت کچھ عیشِ ناجائز حاصل ہو سکتا تھا ؎
Flag Counter