زبان شکوہ اگر ہمچو خار داشتے
ہمیشہ خرمنِ گل درکنار داشتے
ہزار خانہ ز نبور کر دے پُر شہد
اگر گزیدن مردم شعار داشتے
زدستِ راست نہ دانسمتے اگر چپ را
چہ گنجہا بہ یمین و یسار داشتے
میری نگرانی سے پہلے اموالِ ریاست میں ہر طرح کی دست بُرد ہوتی تھی، اور مختلف ذریعوں سے ہر کوئی اپنے مفاد کو ہی ملحوظ رکھتا تھا۔ اب جو سب کے خوخے بند ہو کر ایک ابوبکر صدیق کا خوخہ کھلا رہا تو بدخواہوں کے دل پر غصہ و غضب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان لوگوں نے میری علیحدگی بلکہ نام و نشان مٹانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ پہلے متوسینِ قدسیہ بیگم نے حکام کو میری طرف سے بے اصل اراجیف پہنچا کر برہم کیا۔ لیکن اس کا کامل اثر نہ ہوا۔ اور جب وہ 1299ھ میں وفات پا گئیں تو اقرباء قریب نے پاؤں نکالے اور افتراء و کذبِ بے حقیقت کا ایک آسمان کھڑا کر دیا۔ ایک جماعت کو ہموار کر کے اور ترقی مراتب وغیرہ کا لالچ دے کر ایک ہنگامہ رستخیز برپا کر دیا۔ میں اور بیگم صاحبہ دونوں متحیر تھے کہ یہ کیا بات ہے، اس رستخیز کی علّت کیا ہے؟ آخر میں نے یا رئیسہ عالیہ نے کس پر ظلم کیا ہے، جس کی تحقیق نہیں ہوتی ہے، اور یک طرفہ احکام ناروا جاری ہوتے ہیں۔ مدعیوں کی طرف سے کسی امر کا کوئی ثبوت پیش نہیں ہو سکا۔ بجز اس کے کہ جن لوگوں پر رئیسہ عالیہ نے احسان پر احسان کئے تھے اور جن کے ساتھ میں نے مروّت، رعایت، قدر دانی، اضافہءِ تنخواہ، ترقی عہدہ جات و اختیارات کا برتاؤ کیا تھا، ان میں سے ہر شخص نے احسان و سلوکِ خیر کی مقدار کے مطابق عداوت و شکست پر کمر باندھی، جس کے ساتھ تھوڑا احسان کیا تھا۔ وہ تھوڑا دشمن ہوا، اور جس کے ساتھ زیادہ احسان ہوا تھا، وہ زیادہ دشمن ہو گیا:
﴿ وَ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا﴾ [1]
اور ہنوز یہ دشمنی روز بروز ترقی پذیر ہے۔ حالانکہ منعمِ مجازی کی نعمت کا
|