کفران بھی ایک معصیتِ عظمیٰ اور گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ چوروں میں سے کوئی اگر کسی کا ایک دن نمک کھا لے تو وہ اس کی چوری نہیں کرتا، اور اسے نہیں مارتا۔ ان لوگوں نے عمر یا نصف عمر یا ثلث عمر تک اس ریاست کا نمک کھایا اور بعض نے پشت ہا پشت سے اس ریاست کا نمک کھایا۔ لیکن یہی لوگ تباہی و بربادی کا باعث ہوئے، شاید وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مالکہ کے شوہر کی مخالفت مالکہ کی کور نمکی نہیں ہے۔ سو یہ امر تو لائقِ قبول تب ہو سکتا ہے کہ شوہر، رئیسہ کی رائے کے خلاف اپنی خود پرستی سے مختارِ کار بن بیٹھا ہو یا حیلہ و حوالہ سے رئیسہ کو جدا کرنا چاہتا ہو۔ اس جگہ تو عکس القضیہ ہوا کہ سب لوگوں نے حکام کے سامنے بیان کیا کہ رئیسہ مجھ سے ناخوش ہے اور میری علیحدگی پر اپنا اتفاق رائے ظاہر کیا۔ اور حکام کے کانوں کو مخبری، دروغ گوئی، اتہام اور کذب سے بھر دیا۔ لوگوں کا ایک افتراء مجھ پر یہ ہے کہ میں اولاد اور والدہ کے درمیان نا موافقت کا باعث بنا ہوں۔ حالانکہ دینِ اسلام میں یہ تفریق گناہِ کبیرہ ہے اور دنیا میں میرے حق میں زہرِ قاتل ہے۔ کوئی فردِ بشر دیدہ و دانستہ اپنا برا نہیں چاہتا، پھر کیا میں ایسا ہی نادان تھا کہ اپنی جان کو اس تہلکہ میں ڈالتا۔ لیکن ؎
شور بختاں بآرزو خواہند
مقبلاں رازوالِ نعمت و جاہ
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
یہ حکایتِ حال و شکایتِ قال واقعات بیان کرنے کے لیے ہے، اس لیے نہیں کہ اپنی علیحدگی کا کوئی رنج و فکر میرے دل کو دامن گیر ہے۔ میں تو مجبوراً اس مشغلہ میں مبتلا ہو گیا تھا، نیت، ارادہ یا تدبیر سے اس بلا کو مول نہیں لیا تھا ؎
اس کشمکش سے دام کے کیا کام تھا مجھے
اے الفتِ چمن ترا خانہ خراب ہو
اب جو تائیدِ غیبی میرے شاملِ حال ہوئی ہے تو سب داخلی و خارجی
|