امور سے علیحدہ ہو گیا ہوں، اور اس منعمِ حقیقی و مجازی کی نعمت کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔
ایک حکایت:
شیخ علی متقی رحمہ اللہ نے جب کتبِ سنت میں عدل و انصاف کے فضائل کو دیکھا تو چاہا کہ خدمتِ عدالت اختیار کریں۔ بادشاہِ گجرات کو جب ان کے ارادہ کا علم ہوا تو انہیں حاکمِ عدالت متعین کر دیا۔ بہت جلد عملہ کی رشوت ستانی کی وجہ سے ان پر رشوت ستانی کی تہمت لگی۔ بادشاہ کو خبر ہوئی لیکن یقین نہ کیا۔ اس لیے کہ بادشاہ ان کے متعلق اعتقادِ عظیم رکھتا تھا۔ شیخ کو اس مخبری کا بالکل علم نہ تھا۔ وہ غافل اور بے خبر تھے۔ جب زیادہ شہرت ہوئی تو شیخ نے بھی سنا اور بندوبست کیا کہ یہ دروازہ بند ہو جائے مگر لوگ کب دست کش ہو سکتے تھے۔ ناچار ایک دن وہ دیوانِ حکومت سے اپنا عصا لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر بھاگ گئے کہ دین و دنیا جمع نہیں ہو سکتے۔ ہر چند کہ بادشاہ نے عذر کیا اور اس گمان کی تکذیب کی۔ لیکن شیخ نے پھر سے اس عہدہ کو قبول نہ فرمایا۔ یہی حال میں بھی اپنے دلِ ناتواں میں پاتا ہوں کہ اگر اب کوئی ہزار بار چاہے کہ اس سابقہ حالت پر لوٹ آؤں تو مجھے ہرگز منظور نہ ہو گا ؎
مرا بر مسندِ جم می نشانند
آلٰہی برسرِ آں کو نشینم
مگس طنیت لوگ:
میں یہاں اس قوم کے اندر محصور ہوں، جو جھوٹی بات سے خوش اور
|