گہہ ناز کند فرشتہ بر پاکیِ ما
گہہ عار کند دیوز ناپاکیِ ما
ایمان چو سلامت بلبِ گور بریم
احسنت بریں چستی و چالاکیِ ما
خطاب و القاب کا انتزاع:
میرے دشمن اور حاسد سالہا سال سے میری خرابی کے درپے تھے۔ مجھ پر حکام وقت کی مخالفت کی تہمت لگائی اور ’’هدية السائل‘‘ اور رسالہ ’’اقتراب الساعة‘‘ کے مسائل ہشت گانہ کو اپنے افتراء کے لیے دلیل و شاہد بنایا اور دوسری تہمت مجھ پر بدنظمی ملک کی لگائی حالانکہ میں فی نفسہٖ ان دونوں امر سے بری تھا۔
امر اول سے اس طرح کہ مسائل مذکورہ سابقہ کتب فقہ کا محض ترجمہ تھا، میری طرف سے کوئی تحریر نہ تھی۔ اور وہ مسائل فقہ و حدیث کی کتب متداولہ مطبوعہ ہند و مصر میں اب تک موجود و مروج ہیں۔ اور امر ثانی سے اس لیے کہ میں نہ مختارِ ریاست تھا نہ اہل کارِ ریاست کہ میری طرف ظلم کی نسبت درست ہو، بلکہ فی نفسہٖ کوئی ظلم موجود ہی نہ تھا۔ اس تہمت سے حاسدوں کا مقصود صرف یہ تھا کہ مجھے امورِ حل و عقد میں مدد دہی اور نگرانی سے جدا کر دیا جائے۔ چنانچہ ان کا یہ مقصود حاصل ہو گیا۔ وللہ الحمد!
14 ذی قعدہ 1302ھ مطابق 26 اگست 1885ء کو مجھ سے خطاب و القاب کا انتزاع ہو گیا۔ اور میں اس کام سے علیحدہ ہو گیا۔ بلکہ کام تو میں نے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا، اگرچہ کمینے لوگوں نے مجھے اپنے افتراء سے نہ چھوڑا۔ بہرکیف 1302ء سے عجب ہنگامہ رستخیز میرے اور رئیسہ عالیہ کے متعلق روز افزوں ہے اور اخبارِ موحش و آثارِ خوف میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور ابھی تک ان اراجیف، ہموم، غموم اور کروب سے امن حاصل نہیں ہے۔
|