ریاست کی خدمت:
جب میں صرف ملازم تھا، مجھے ریاست کے اندرونی یا بیرونی کاروبار سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی خدمتِ مفوّضہ کا بجا لانا اور آقا کی باز پرس سے بچے رہنا ہی نصب العین تھا۔ الحمدللہ کہ میں نے اس نوکری چاکری میں فرائض منصبی کی ادائیگی میں کبھی چشم پوشی نہیں کی، نہ اوروں کی طرح کام سے جان چرائی اور نہ غیر حاضری اختیار کی بلکہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ پندرہ سال تک کام کرتا رہا ؎
عیش میں بھی تو نہ جاگے کبھی تم کیا جانو
کہ شبِ غم کوئی کس طور بسر کرتا ہے
پھر جب اُس حالت سے اِس حالت کو پہنچا اور اسے انجام کے اعتبار سے پہلی حالت سے بہتر سمجھتا ہوں، اگرچہ پرستارانِ دنیا کی نظر میں یہ بھی ایک بڑا اوج ہے تو منعم حقیقی و مجازی کے شکریہ کی ادائیگی میں محنت، خیر سگالی، خیر اندیشی اور خیر طلبی کا کوئی دقیقہ اپنی قدرت کی حد تک فرو گذاشت نہ کیا۔ میں شب و روز آسیا (چکی) کی طرح گردشِ محن و فتن میں رہا۔ خصوصاً اس جہت سے کہ آقا نے امارت کے کاروبار کا تمام بوجھ ظاہری طور پر میرے سر اور کندھے پر ڈال دیا تھا۔ مگر باطنی اعتبار سے سب امور اپنے ہی قبضہ اختیار میں رکھے تھے۔ یہ وہ بار تھا جس کا کوئی شمار نہیں، میری یہ کیفیت ہوئی ؎
بارِ جہاں بردلِ آں ناز نیں
سینہ چنین نازک و بارِ چنیں
|