گیا ہے، حالانکہ میں نے اپنے ارادے سے کبھی کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ احسان و عفو ہی سے پیش آیا ہوں۔ لیکن اُمید ہے کہ اس ظاہری فساد میں بھی اللہ کے ہاں کوئی باطنی اصلاح ہو گی جو یہ صورت ظاہر ہوئی۔ والحمدلله عليٰ كل حال و في كل حال و بكل حال۔ عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ [1]
صحبتِ اغنیاء سے دوری:
ابتداء شعور سے اغنیاء کی صحبت سے دور رہا ہوں۔ زمانہ طالب علمی میں بھی کبھی کسی تونگر کے پاس نہیں گیا۔ اگرچہ سفرِ دہلی میں بہت سے اغنیاء سے ملاقات ہوئی تھی۔ تاہم ان سے دور ہی رہا۔ جب سے یہاں آیا ہوں اگرچہ اکثر راجگان و امراء مثلاً خورشید جاہ و سالار جنگ، امراء حیدر آباد دکن اور راجہ جے پور، جودھ پور، پٹیالہ، گوالیار اور اندور وغیرہ سے سفر و حضر میں ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ اور ان سے گورنر جنرل کے دربار میں بدرجہ مساوات نشست بھی ہوئی ہے۔ اور نواب کلب علی خاں رئیسِ رامپور سے خط و کتابت بھی رہی ہے۔ لیکن یہ سب سرسری ملاقاتیں تھیں۔ میں کسی کا مصاحب نہیں بنا۔ میرے شیوخ کے وصایا میں سے ایک وصیت یہ بھی ہے، جو ’’قول الجمیل‘‘ میں لکھی ہوئی ہے۔
((منها ان لا يصحب الاغنيآء الا لدفع مظلمة عن الناس او بعث عامتهم علي الخير وهذا هو وجه التوفيق بين الاحاديث الدالة علي ذم
|