کبیرہ کو بغیر توبہ کے معاف کر دے اور چاہے تو صغیرہ پر پکڑ لے۔ اس لیے نہ کبیرہ پر مایوس ہونا چاہیے اور نہ صغیرہ کو حقیر جاننا چاہیے۔ البتہ توبہ صادق ضرور گناہوں کو محو کر دیتی ہے۔ اے اللہ! تو ہمیں توفیق عنایت فرما اور بخش دے!
شرک و بدعت سے توبہ کرنا سب سے مقدم ہے۔ اس لیے کہ شرک کے ستر (70) اور بدعت کے بہتر (72) در ہیں۔ شرک وہ بلا ہے جس سے بڑے بڑے اکابر نہ بچ سکے اور یہ بدعت وہ آفت ہے جس میں بڑے بڑے اہل علم پھنس گئے۔ جاہل مؤمن شرک کو شرک نہیں سمجھتا اور بدعتی بدعت کو اچھا سمجھتا ہے۔ اس لیے انہیں توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔
توبہ و استغفار:
میں توبہ و استغفار کے الفاظ ماثورہ کو ہمیشہ زبان پر جاری رکھتا ہوں، خواہ گناہوں سے تحفظ حاصل نہ بھی ہو۔ کیونکہ گناہ کرنا تو گناہ ہے ہی لیکن توبہ و استغفار کی طرف دل کو نہ لگانا ایکدوسرا گناہ ہے۔ کیونکہ گناہ کے بعد توبہ فی الفور واجب ہو جاتی ہے۔ پھر اگر دوبارہ وہی گناہ ہو جائے یا کوئی اور، تو پھر اسی دم توبہ کرنی چاہیے۔ ایک گناہ کے بعد انسان ارادہ کرتا ہے کہ وہ دوبارہ یہ قصور نہیں کرے گا۔ مگر نفسِ امارہ اور شیطانِ لعین کے گمراہ کرنے سے دوبارہ سہ بارہ پھر وہی گناہ کر گزرتا ہے۔ اگر ہر گناہ کے ساتھ توبہ و استغفار کی توفیق ملتی رہے تو بحکم
﴿ إِنَّ ٱلْحَسَنَـٰتِ يُذْهِبْنَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ﴾
گناہوں اور توبہ و استغفار کے درمیان موازنہ ہوتا ہے۔ استغفار بڑھ جائے تو گناہ گھٹ جاتے ہیں۔ اس لیے شرع شریف میں کثرتِ استغفار مطلوب ہے۔
((طُوْبٰي لِمَنْ وَجَدَ فِيٌ صَحِيْفَتِهٖ اسْتِغْفَارًا كَثِيْرًا۔ اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْتَغْفِرُكَ
|