فیوضات داند و ہمہ مواجید و اذواق متعارفہ را در جنبِ جمعیت باطن و دوام حضورا عتباری ننہد و در صحبت عزیزیکہ ازیں امور اثرے دریا بد اورا نائبِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دانستہ خدمتش لازم گیرد و بجوز و مویز ایں راہ فریفتہ نشود اگرچہ لذیذ باشد والسلام۔‘‘
سب فیوضات سے افضل جانے اور ہر قسم کے متعارف و مروج و جدد و ذوق و حال کو جمعیتِ باطن اور دوامِ حضور کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ دے اور جس گرامی قدر شخص کی صحبت میں ان امور کے کچھ آثار دیکھے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب سمجھ کر اس کی خدمت خود پر لازم کر لے۔ اور اس راہ کے اخروٹ اور منقیٰ پر فریفتہ نہ ہو اگرچہ وہ لذیذ ہو۔ والسلام‘‘
نسبت کی حقیقت:
تمام طرقِ مشائخ کا مرجع تحصیلِ نسبت کی طرف ہے اور یہ نسبت کا مقام ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اور سکینت و نور کے ساتھ ایک طرح کے انتساب و ارتباط کا۔ نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کیفیت ہے جو نفسِ ناطقہ کے اندر حلول کر جاتی ہے۔ اور نفس ملائکہ کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ اور جبروت کی طرف متطلع رہتا ہے۔ نفس کو یہ کیفیت اس طرح ہاتھ آتی ہے کہ وہ طاعات و طہارات اور اذکار پر مداومت کرے یہاں تک کہ یہ امور جبروت کی طرف توجہ کے لیے ملکہ راسخہ بن جائیں۔ پھر اس کے انواع و اقسام بھی بہت ہیں۔ مثلاً نسبتِ محبت، نسبتِ شوق، نسبتِ کسرِ نفس، حظوظِ نفس سے مبرا ہونے کی نسبت کا نام نسبتِ اہل بیت و نسبتِ مشاہدہ ہے۔
اِس سے توجہ الی المجرد البسیط کا ایک ملکہ راسخہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات
|