سکے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ولایت کو تقویٰ میں منحصر فرمایا ہے:
﴿ إِنْ أَوْلِيَآؤُهُۥٓ إِلَّا ٱلْمُتَّقُونَ﴾ [1]
’’نہیں ہیں اس کے دوست مگر پرہیزگار۔‘‘
متقی کی صحبت میں بیٹھنے میں خواہ اس سے فائدہ ہو یا نہ ہو، کوئی قباحت نہیں۔ اگر صحبت میں اثر نہ دیکھے تو جدا ہو جائے۔ لیکن اس کے ساتھ حُسنِ ظن رکھے اور جس کی صحبت میں تاثیر پائے، اس کی صحبت اختیار کر لے۔ اس لیے کہ حق مقصود ہے، شخص نہیں۔
تاثیر سے مراد یہ ہے کہ اس کی صحبت میں دل کی حالت ایسی ہو جائے کہ دل دنیا سے سرد پڑ جائے۔ خدا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے دوستوں کی محبت، اعمالِ صالحہ کی اُلفت اور حَسنات کے کرنے اور سیئات سے بچنے کی توفیق حاصل ہو۔ اسے دیکھ کر خدا یاد آئے، حضور و آگاہی کا دوام میسر ہو۔ ذکرِ خدا سے اطمینان و جمعیتِ خاطر میسر ہو، نیک کاموں سے اس کی نسبت و حالت بڑھے اور برے کاموں سے دل میں تنگی و بے آرامی اور نسبت میں کمی واقع ہو۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔
((اِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَ اَسَآءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَاَنْتَ مُؤْمِنٌ)) [2]
’’جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیری برائی تجھے بری محسوس ہو تو تو مومن ہے۔‘‘
یہ اسی طمانیت و تنگی سے کنایہ ہے، اس زمانہ میں ایسے شیخ کا ملنا نہایت مشکل ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مجدد رحمہ اللہ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے:
’’ہر مریضے کہ طالبِ صحتِ کاملہ یعنی نسبتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم باشد باید کہ اتباعِ سنتِ نبویہ را بہتر از جمیع ریاضات و مجاہدات شناسد و انوار و برکاتے کہ براں مترتب گرد د افضل از ہمہ
’’ہر وہ مریض (روحانی) جو صحتِ کاملہ یعنی نسبتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طالب ہو اسے چاہیے کہ اتباعِ سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام ریاضات و مجاہدات سے بہتر سمجھے اور اس (اتباع) پر مترتب ہونے والے انوار و برکات کو
|