3۔ رویائے صالحہ
4۔ فراستِ صادقہ اور
5۔ اجابتِ دعاء ظہورِ مطلوب۔
اِس کی تفصیل ’’قول جمیل‘‘ میں سنتِ مطہرہ کے دلائل کے ساتھ موجود ہے اور اس نسبت کے حصول کے بعد وہ عروج ہوتا ہے جسے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کہتے ہیں۔ اور یہ عروج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متوارث نہیں بلکہ اللہ کا عطیہ ہے کہ جسے چاہے دے۔ خواجہ نقشبند رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ:
’’آپ کے شیوخ کا سلسلہ کیا ہے؟‘‘
فرمایا:
’’کوئی شخص اللہ تعالیٰ تک کسی سلسلہ سے نہیں پہنچا ہے۔ مجھے ایک جذبہ آیا اس نے اس تک پہنچا دیا۔‘‘
حالانکہ ان کے شیوخ کا سلسلہ معروف و معلوم ہے۔ شاید اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ:
((جَذْبَةٌ مِّنْ جَذَبَاتِ اللّٰهِ تُوَازِيْ عَمَلَ الثَّقَلَيْنِ))
’’اللہ کے جذبات میں سے ایک جذبہ جن و انس کے عمل کے برابر ہے۔‘‘
طریقہ نقشبندیہ:
اگرچہ میں صوفیہ کے تمام طرق کو موصل الی اللہ سمجھتا ہوں۔ اور جملہ طرق کے مشائخ کو مانتا ہوں۔ لیکن میرے آباؤ اجداد، اساتذہ، اور مشائخ کا طریقہ نقشبندیہ ہے، گو اور طرق کی بھی اجازت حاصل تھی۔
|