1۔ جو نہ زبان رکھتا ہے نہ دل، ایسا شخص علاج کے بغیر درست نہیں ہو سکتا۔
2۔ جو زبان تو رکھتا ہے لیکن دل نہیں رکھتا، جیسے کہ وہ شخص جو حکمت کی باتیں تو کرتا ہے۔ لیکن حکمت کے مطابق خود عمل پیرا نہیں ہوتا، لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہے لیکن خود خدا سے بھاگتا ہے۔ ایسے ہی شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے کہ:
((اَخُوْفُ مَا اَخَافُ عَلٰي اُمَّتِيْ كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيْمِ اللِّسَانِ جَاهِلِ الْقَلْبِ)) [1]
’’مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ ہر اس منافق کے وجود سے ہے جو زبان کا عالم لیکن دل کا جاہل ہے۔‘‘
3۔ وہ جو دل تو رکھتا ہے لیکن زبان نہیں رکھتا، یہ وہ مومنِ کامل ہے جسے اللہ نے اکثر مخلوق سے مستور رکھا ہے، وہ اپنے نفس کے عیوب جانتا اور پہچانتا ہے۔ مخالطت کی تباہ کاریوں اور کلام و منطق کی نحوستوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسے عقل وافر عطا کی گئی ہوتی ہے۔
4۔ جو زبان و دل دونوں رکھتا ہے۔ یہ عالم عامل ہے۔ ان اقسام میں سے صرف سوم اور چہارم کے لوگ صحبت کے لائق ہیں۔ باقی انواع سے احتراز لازم ہے۔
کن کی صحبت سے بچنا چاہیے:
میں جہال صوفیہ، جہال متعبدین ہتفقہہ، اصحاب معقول و کلام میں سے غلو کرنے والوں اور اصحابِ جوائب کی صحبت سے محترز رہتا ہوں۔ دین میں غلو و تعصب اور افراط و تفریط کو میں پسند نہیں کرتا۔ بلکہ اس وصیت پر قائم ہوں جو
|