اور ائمہ ملت کی تحقیقات کے خلاف ہو بلکہ:
’’کالائے بد بریشِ خاوند۔‘‘
سمجھ کر پھینک دیں۔ مجھے اس امر کا کچھ ملال دامن گیر نہ ہو گا۔ اس لیے کہ میں نہ تو معصوم ہوں اور نہ مجھے اپنے غلطی سے محفوظ ہونے کا دعویٰ ہے۔ بلکہ کثیر التالیف شخص سہو و نسیان کا لازماً شکار ہو جایا کرتا ہے۔
اہل بیت کا ظاہری برتاؤ:
میرے اہل بیت کا مجھ سے ظاہری برتاؤ ایسا تھا جس سے سب نے یہ جانا کہ گویا میں ہی اس جگہ صاحبِ حل و عقد ہوں، اور باطن میں مجھے کسی بات کا اختیار نہ دیا۔ اور اسی وجہ سے میں آلام و مصائب کا تختہِ مشق بنا ؎
ہمارے دوست کی ہم پر یہ مہربانی ہے
ہمارے واسطے جو کچھ ہر اک عدو نے کیا
اگر معاملہ اِس کے برعکس ہوتا تو شاید خدا کے حکم سے ان آفتوں کی نوبت نہ آتی۔ میری یہ تمنا نہیں تھی کہ میں رسائی حاصل کر کے کوئی ناجائز نفع حاصل کروں۔ اگر اوروں کی طرح عیاذاً باللہ۔ کذب، خیانت اور مکر سے کام لیتا تو آج وہ بھی مجھ سے اس موجودہ حالت کی بہ نسبت زیادہ خوش ہوتیں۔ کیونکہ مستورات کا مزاج دروغ پسند اور فریب دوست ہوتا ہے، چنانچہ لوگوں نے خیانت کی، خیرخواہی کے پردے میں بدخواہی کا کام کیا، اور ہم راز بن کر زرِ خطیہ خرد بُرد کر لیا۔ وہ لوگ اب تک زیادہ ملتفت الیہ اور معتمد علیہ ہیں۔ اور جس نے حق بات ناصحانہ کہی اور سچی دلسوزی سے پیش آیا وہی دشمن ٹھہرا۔
﴿ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا﴾ [1]
|