Maktaba Wahhabi

274 - 384
اور اقوالِ ضعیفہ کو ترک کر دے، یا ان کی اصلاح فرمائے، اور نسخہ غلط کو صحیح کرے، مؤلف زندہ ہو تو اسے مطلع کرے، اور جلد بازی سے بغیر سمجھے بوجھے اعتراض نہ کر دے۔ ہم نے دیکھا کہ بعض لوگوں نے بعض تالیفات پر اعتراض کئے لیکن وہ سب انہی پر منقلب ہوتے تھے، اور بعض ایسے دعوے پیش کیے، جن میں وہ خود مدعا علیہ بن گئے۔ ایک شخص نے کہا کہ مباہلہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا۔ لیکن تنقیح کے وقت عدمِ خصوصیت واضح ہو گئی یا جیسے دعوےٰ کہ سیوطی رحمہ اللہ، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے شاگرد نہیں تھے، حالانکہ خود سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تدریب الراوی‘‘ میں اپنے آپ کو ان کا شاگرد لکھا ہے اور اسی طرح شعرانی رحمہ اللہ نے بھی ’’مننِ کبریٰ‘‘ میں انہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا شاگرد لکھا ہے۔ وَقِسْ عَلٰي هَذَا میری تالیفات پر بھی اسی قسم کے اعتراضات ہوئے، جو کہ میزان میں صحیح ثابت نہ ہوئے، البتہ بعض وہ اعتراض ضرور قرینِ قیاس تھے، جن کی بنیاد سہو القلم، کاتب، ناقل، طابع یا مطابقتِ ماخذ پر تھی، ان میں سے بھی بعض غیر قرینِ قیاس تھے، بہرحال جو اعتراض براہِ اخلاص ہو، وہ بلاشک لائق قبول ہوتا ہے، اور جس کی بنیاد آب و سراب پر ہو یا خیال و خواب پر مجرد منافست و تحاسد پر، اللہ اس میں برکت نہیں دیتا۔ اور اس کتاب و مؤلفِ کتاب کو نظر، اعتبار سے ساقط نہیں کرتا۔ کسی مؤلف کی یہ تمنا کہ لوگ ہماری تالیف کو قبولیت بخشیں، ہم کو بڑا عالم سمجھ کر تواضع سے پیش آئیں اور ہمارے سامنے کسی دوسرے اہل علم کی رفعت و وقعت باقی نہ رہے، عین ریا، عجب، کبر، حسد اور خفد ہے۔ اَللّٰهُمَّ احْفِظْنَا میں تمام جہان کے علماء سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ میری کسی کتاب کی کوئی بات اس صورت میں ہرگز قبول نہ کریں۔ جب کہ وہ کتاب و سنت اور علمائے سلف
Flag Counter