1301ھ سے مسلسل بعینہٖ یہی حال میرا بھی ہو رہا ہے۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰي كُلِّ حَالِ!
اَضَاعُوْنِيْ وَاَيَّ فَتًي اَضَاعُوْا
لِيَوْمِ كَرِيْهَةٍ وَ سَدَادِ ثِغْرٍ
آمدم برسرِ مطلب اب میں اہل انصاف کی خدمت میں یہی بات کہتا ہوں کہ میری تالیف ہو یا کسی اور عالم کی، خواہ قدیم ہو یا جدید، ہر مسلمان ایماندار تقویٰ شعار کو اس کی بابت کلمہ مشہورہ ’’خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدَرَ‘‘ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ غلطی، خطا، اختلاف، تناقض اور تعارض اور ان جیسے دوسرے عیوب سے صرف اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہی محفوظ ہے اور کسی کو یہ بات میسر نہیں:
﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾[1]
’’اور اگر وہ (قرآن) اللہ کے غیر کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘
یہ بات کہ میری تالیف ہر خطا و نقصان یا سہو و نسیان سے محفوظ ہے، ایک خیال مختل اور تعلیل معتل ہے۔ ہاں جاہل بے شعور یہ کرتا ہے، کہ جب کوئی شخص کسی کی تالیف پر اعتراض اور اس کی تردید کرتا ہے، گو وہ درجہ علم و فضل میں اس معترض علیہ سے کم ہو مگر وہ جاہل یوں گماں کر لیتا ہے کہ وہ تالیف ناقص و ناقابلِ قبول ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل خلافِ عقل ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ دو چار مقامات میں خطا و سہو سے، اس تالیف کے سارے فضائل بے اعتبار ٹھہر جائیں، بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ کم علم لوگ زیادہ علم والوں پر معترض ہوتے ہیں اور اعتراض محض عدمِ فہم، قلتِ عبور یا تحصیل شہرت کے لیے ہوتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جو تصنیف کو میزان میں رکھ کر پرکھے، عمدہ تحقیقات علوم کو قبول کرے
|