صحبة الملوك و بين ما صحبهم كثير من العلمآء البررة))
’’ایک وصیت یہ بھی ہے کہ اغنیاء کی صحبت اختیار نہ کرے ہاں اگر لوگوں سے ظلم دور کرنا ہو یا ان کی کوئی بھلائی کی بات مقصود ہو تو الگ بات ہے اور یہی تطبیق ہے، ان احادیث میں جو بادشاہوں کی صحبت کی مذمت پر دال ہیں اور اس بات میں کہ بہت سے نیک علماء بادشاہوں سے صحبت بھی رکھتے رہے۔‘‘
بیگم صاحبہ بھی بے پناہ دولت مند ہیں۔ لیکن وہ عقدِ شرعی کی وجہ سے اس وصیت سے خارج ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے عہد میں اس شہر کے بہت سے منکرات و بدعات ختم ہو گئے ہیں۔ اور ظلم کی بہ نسبت عدل و انصاف زیادہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوصف میں اس عذرلنگ کو قبول نہیں کرتا بلکہ بجائے خود نادم ہوں اور اس ابتلاء کو اپنے لیے عقوبت خیال کرتا ہوں اور زبانِ حال سے کہتا ہوں
جان سختم عذر از دوزخ جاوید نکرد
خانہ در کوچہ آسودہ دلانم دادند
اب جو اس سلسلہ میں بندھ گیا ہوں اور ہر چند رہائی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہوں لیکن عافیت کا کوئی راستہ نہیں پاتا
پائے بستند ورہِ سعی نشانم دادند
دست و بازو بشکستند و کمانم دادند
اَللّٰهُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْاُمُوْرِ كُلِّهَا وَ اَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَ عَذَابِ الْاٰخِرَةِ
صحت و عافیت:
اللہ تعالیٰ کا ایک احسان مجھ پر یہ بھی ہے کہ معمولی امراض کے علاوہ کبھی کوئی ایسا مرض لاحق نہیں ہوا، جس سے مخلوقِ خدا کو نفرت ہو۔ بس گاہے بگاہے تب لرزہ یا نزلہ و زکام وغیرہ ہو جاتا ہے۔ حدیثِ انس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ
|