کیونکہ یہ تمام لوگوں اور بڑے آدمیوں کا مقصدِ حیات اور ہر چھوٹے بڑے انسان کی ضروریات بن گئی ہیں۔ ہاں ؎
ہمہ اندرد زِمن بتو این است
کہ تو طفلی و خانہ رنگین است
بنارس:
جب کلکتہ سے واپسی سفر میں شہر بنارس پر گزر ہوا تو اس بنا پر کہ یہ شہر بت پرستوں کی قدیم عبادت گاہوں کا شہر ہے۔ یہاں بڑے بڑے عجائب دیکھنے میں آئے، ان سب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم ایک دن شہر کی جامع مسجد دیکھنے کو سوار ہوئے۔ یہ مسجد اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ایک بت خانے کو توڑ کر تعمیر کی گئی تھی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ صحنِ مسجد کبوتروں اور دیگر پرندوں کی بیٹوں سے اس طرح بھرا پڑا ہے جیسے انگریزی پولیس کے بم پڑے ہوں۔ محراب مسجد کے قریب جہاں امام کے کھڑا ہونے کی جگہ ہے ایک پتھر پر یہ عبارت لکھ کر آرائش کر رکھی ہے:
’’در سلطنت شاہ عالم بادشاہ بامدادِ امیر الملک عماد الدولہ گورنر جنرل مسٹر ہشتن صاحب بہادر جلادت جنگ سنہ یک ہزار ویک صدو نودو بہمشت (1198) ہجری نصیر الدولہ علی ابراہیم خاں بہادر حاکمِ شہر بنارس ترمیم نمود۔‘‘
سبحان اللہ۔ اس سے پہلے ایسی مقدس جگہوں اور عبادت کے مقامات پر آیاتِ قرآنی و احادیثِ زبانی لکھی جاتی تھیں۔ اب ان کی جگہ مسٹر ہشتن صاحب بہادر اور اس قسم کی عبارتیں مسجدوں کی طاقوں پر
|