اپنے پاس نہ رکھ سکا ہوں گا۔ چونکہ کسی چیز کا علم اس سے لاعلمی سے بہتر ہے۔ اگرچہ علم کا پسندیدہ حصہ صحائفِ دین کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ اس لیے ابھی علمِ حدیث و تفسیر اور ان سے متعلقہ کتابوں کی آمد آمد ہے۔ اور ائمہ سلف کی تالیفات کی جستجو باقی ہے۔ ان کی خرید میں زرِ کثیر صرف کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسی ایسی (چیزیں) تخلیق ہو رہی ہیں۔ جن کا تمہیں علم نہیں ہے ؎
حدیث است جنسِ گراں مایہ زائر
تواں شد خریدار با نقدِ جانش
سفر کلکتہ:
اور اس مقالہ کی تالیف کے دوران اتفاق سے سات ذیقعدہ 1292ھ کو کلکتہ کا سفر پیش آ گیا۔ اس ماہ کی سولہ (16) تاریخ کو وہاں پہنچا۔ اور ایک مہینہ وہاں ٹھہرا۔ مدرسہ عالیہ اور ولیم فورٹ سسیٹی (سوسائٹی؟) اور قدیم و جدید چھاپہ خانے اس اُمید پر ملاحظہ کئے کہ شاید دینی کتب میں سے کچھ کتابیں حاصل ہو سکیں گی۔ اس شہر کے بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات بھی کی۔ خصوصاً ان لوگوں سے جن کو اہل علم کہا جاتا ہے۔ مگر ان میں سے کسی سے بھی علم اور دینداری کی بُو نہیں آئی۔ دنیا اور اس کا مال حاصلِ کرنے میں انہماک کے سوا کوئی اور چیز ان مالداروں اور تہی داستوں میں نظر نہ آئی۔
فانا للّٰه عليٰ ذهاب العلم والعمل وحب الآفل و طول الامل
بہرحال بڑی تگ و دو کے بعد سنن نسائی کا ایک نسخہ شہر
|