قیافہ اور اندازہ لگانا مشکل ہے۔ خصوصاً جس شخص سے کوئی زیادہ کام نہ پڑتا ہو، محض دور کی صاحب سلامت ہو، اس سے ہر شخص خواہ کیسا ہی عاقل کامل کیوں نہ ہو۔ ضرور دامِ غفلت میں پھنس جاتا ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:
((اَلْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيْمٌ وَ الْمُنَافِقُ خِبٌّ لَئِيْمٌ))
’’مومن فریب کھا جانے والا معزز ہے، اور منافق فریب کار کمینہ ہے۔‘‘
بندہِ مومن کو بڑا دھوکا اس شخص سے ہوتا ہے جو علم یا دینداری کا لبادہ اوڑھ کر دھوکا دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ سعادت مہد میں منافقین بے حساب تھے۔ قرآن مجید دیکھو نفاق و اہل نفاق کا کس کثرت سے ذکر ہے۔ پھر ہم اِس دور پر شور کا کیا شکوہ کریں؟ اب تو ایک شخص بھی قولاً یا عملاً، قلتاً یا کثرتاً خصالِ نفاق سے خالی نظر نہیں آتا
مزہ در جہاں نمی بینم
دہر گوئی دہانِ بیمار ست
عداوت کا جوش و خروش جیسے دوسروں کا میرے ساتھ ہے۔ میرا کسی کے ساتھ نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حفاظت نہ ہوتی، تو میں مدت سے لقمہ اجل ہو چکا ہوتا۔ لیکن وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ [1]
ابتلاء کے بعد:
ہر چند کہ اس زلزلہ عظیم میں جان و مال اور آبرو کے اعتبار سے متواتر صدمات پہنچے مگر ایمان تزلزل سے محفوظ رہا۔ بڑا بلوہ کتب دیں کی تالیف کے سلسلہ میں تھا۔ بحمداللہ اسی سابقہ حالت کے مطابق بلکہ اس سے بھی
|