Maktaba Wahhabi

286 - 384
ایک ایمان باقی رہ گیا ہے، وہ ان شاء اللہ فنا پذیر نہ ہو گا۔ ہاں اگر وہ بھی جان و مال اور آبرو کی طرح زید و عمرو کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ حاسد ہرگز اسے بھی نہ چھوڑتے بلکہ تاراج کرتے، مگر وہ تو کسی بشر کے قبضہِ قدرت میں نہیں ہے، اس لیے ان کے شر سے محفوظ ہے۔ حفظہ اللہ و سلمہ اس شہر کے لوگ: میرے زمانہ آفت نشانہ میں علمائے آخرت روئے زمین سے بالکل مفقود ہو گئے ہیں۔ ﴿ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا[1] اب جو لوگ اپنے آپ کو اہل علم کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں، یہ سب عشاقِ دنیا ہیں، ان کا شغل تحصیلِ کتاب کے بجائے، استحصالِ مال و خطاب ہے۔ یہ خود لوگوں کو برانگیختہ کرتے ہیں کہ وہ: ((اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ)) کے مصداق ہو جائیں۔ رات دن فنونِ جہالت میں مشغول رہتے ہیں، خواص نے عوام کا شیوہ اختیار کر لیا ہے۔ اور عوام تو پہلے ہی کالانعام ہیں۔ منجیات و معروفات نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئے ہیں، مہلکات و منکرات، حسنات قرار پا گئے ہیں۔ قیامت کی چھوٹی علامتوں کا ایک مدت دراز سے ظہور ہو چکا ہے۔ اب چودہویں صدی کے آغاز میں ہر طرف سے قیامت کی بڑی علامتوں کا ظہور ہو رہا ہے۔ حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے: ((اِنَّمَا النَّاسُ کَالْاِبِلِ الْمِائَۃِ لَا تَکَادُ تَجِدُ فِیْھَا رَاحِلَۃً)) (متفق علیہ) ’’لوگ سو اونٹوں کی طرح ہیں، جن میں سے تو ایک بھی سواری کے قابل نہ پا سکے۔‘‘
Flag Counter