’’مجھے بخش دیا۔‘‘
کہا کس بات پر؟
کہا کہ:
((لِقَوْلِ النَّاسِ فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ))
یعنی ’’لوگوں کے میرے متعلق وہ کچھ کہنے کی وجہ سے جو مجھ میں نہ تھا۔‘‘
مجھ پر اس شہر میں صدہا دینی و دنیاوی افترا باندھے گئے اور اب تک بلکہ شاید تا آخرِ حیات یہ کارستانی رہے گی۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں ان الزامات سے بری ہوں، اور شاید میری براءت ہی میری جان، مال اور آبرو کی حفاظت کا سبب ہے۔ اگرچہ میرے مخفی گناہ ان افتراء پردازیوں کی بہ نسبت یقیناً زیادہ ہوں گے، جن پر مخلوق کو اطلاع نہیں ہے، ہاں جس کو اطلاع ہے۔ اس نے اپنے فضل و کرم سے انہیں مستور رکھا ہے۔ یہ اس کا احسانِ کریم اور امتنانِ عظیم ہے۔ گناہ را اگر بوئے بودے ہیچ کس پہلوئے من نمی تو انست نشست وَلٰكِنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُهٗ عَلٰي غَضَبِهٖ
اندازِ تصنیف:
میری اکثر تالیفات نہایت تحقیق کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ حالانکہ جو شخص کثیر التالیف ہو، اس سے غلطیاں بھی بکثرت ہوتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے جو کچھ لکھا پڑھا ہے۔ اس میں کوئی سہو و نسیان نہیں ہوا ہو گا۔ بلکہ ہر تالیف میں ضرور خطائیں ہوں گی۔ کیونکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سوا کسی بشر کی جمع و تالیف خطاء سے مبرا نہیں ہو سکتی۔ بلکہ مجھے تو معلوم ہے کہ دنیا میں کوئی مؤلف، مصنف ایسا نہیں ہوا جس کی تالیف و تصنیف پر اس کے کسی معاصر یا متاخر نے تنقید نہ کی ہو۔
|