Maktaba Wahhabi

174 - 384
ہر فقیہ اور ہر محدث کی ہر کتاب پر تنقید کی گئی ہے۔ مثلاً شروحِ حدیث میں سے ’’فتح الباری‘‘ بے مثل ہے۔ اور علماء نے اس کے حق میں کہا ہے کہ ’’لا هجرة بعد الفتح‘‘ اس کے باوجود علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس کے بعض مقامات پر تنقید کی ہے۔ اور سید محمد بن اسماعیل رحمہ اللہ نے ’’احالات فتح‘‘ میں مؤلف کا نسیان ثابت فرمایا ہے، اور ائمہ اعلام کی جملہ تالیفات کا یہی حال ہے۔ پھر ہم ایسے عوام کا کیا ذکر۔ میں نے بھی علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے بعض مسائل پر تنقید کی ہے۔ اور بعض جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی بعض تقریرات کو بھی تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ میرے پاس ان کے خلاف صحیح دلائل تھے۔ اور ان کے دلائل میرے دلائل کے مساوی یا ان پر مقدم نہ تھے۔ لیکن اس بات سے نہ ان کا رتبہ کم ہوتا ہے اور نہ میرا رتبہ بڑھتا ہے۔ بلکہ صوری و معنوی فضیلت انہیں ہی حاصل ہے۔ اور بنی آدم انظار میں متفاوت الفہم ہوتے ہیں۔ ہمارا سارا علم ان کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے قطرہ بحرِ محیط کے سامنے یا ذرہ آفتاب کے سامنے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر عالم پر جو چیز واجب ہے وہ ہے ظاہر کتاب و سنت کی موافقت۔ اور یہ موافقت اسی قدر ہو گی، جس قدر دلائل پر عبور ہو گا۔ اور وہی علم اس پر حجت بھی ہے۔ اور جس چیز کی دلیل کا ہمیں علم نہیں اس میں ہم معذور ہیں۔ بہرحال میرا یا کسی اور کا کسی کتاب کے متعلق یہ خیال کہ، وہ خطاء سے محفوظ ہے، عین خطاء ہے بلکہ قول معروف یہ ہے کہ: ((اَلْفَاضِلُ مَنْ عُدَّتْ سَقَطَاتُهٗ وَ اُحْرِزَتْ مُلْتَقَطَاتُهٗ)) اور طریقہ انیقہ بھی یہی ہے کہ: ((خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدِرْ))
Flag Counter