میری اہل علم و دین کی خدمت میں گزارش ہے کہ میری کتاب کا جو مسئلہ کتاب و سنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اُٹھا کر دیوار پر مار دیں اور جو مسئلہ قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے قبول کر لیں۔ میں ان شاءاللہ اس رد سے خوش دل ہوں گا۔ مجھ میں یہ عصبیت، نفسانیت اور حمیتِ جاہلیت نہیں ہے کہ سخن پروری کروں، بلکہ خطاء و صواب کی تنقیح میرا عین مدعا ہے، میں ہر شخص کی عمدہ بات کو جو شرع و عقل کے مطابق ہو قبول کر لیتا ہوں، خواہ وہ میرے برابر ہو یا مجھ سے بھی چھوٹا ہو۔ اور جو بات نصوص کے خلاف ہو اسے قبول نہیں کرتا۔ خواہ کہنے والا کتنا ہی بڑا عالم و فاضل اور قابل ہی کیوں نہ ہو۔
مثلاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول تسلیم نہیں کرتا کہ ایک دن نار بھی فنا ہو جائے گی۔
شیخ ابن عربی کا یہ قول قبول نہیں کرتا کہ فرعون حالتِ ایمان میں مرا ہے۔
لیکن شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ کی یہ بات قبول کرتا ہوں کہ بدعت اگرچہ حسنہ ہو اس سے ظلمت پیدا ہوتی ہے اور آخر کار ختم و طبع اور دَین (یعنی دل پر مہر اور زنگ) کی نوبت آ جاتی ہے۔ اور سنت اگرچہ اندک ہو اس سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔
پہلی باتوں کو مسترد اور آخری کو قبول کرنے کا سبب یہ ہے کہ پہلی دو باتیں ادلہ شرعیہ کے ظاہر کے خلاف ہیں۔ اور شیخ عبدالحق رحمہ اللہ کا یہ قول سنتِ صحیحہ کے موافق ہے کہ:
((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَّكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ))
|