محفوظ فرما دیتا ہے۔ والله الحمد والمنة
فقر و غنا:
اگرچہ میں فقر سے ڈرتا ہوں، خصوصاً اس اعتبار سے کہ فقر اکثر زوالِ دین کا موجب اور بالیقین باعثِ سوال و ذلت ہوتا ہے۔ لیکن میرے دل میں دنیا کی محبت اتنی نہیں جتنی کہ اہل دنیا کو ہوتی ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک کبھی کسی لذیذ طعام، نفیس لباس یا عمدہ سواری وغیرہ کا شوق نہیں ہوا۔ جو ملا وہ کھا لیا، جو ہاتھ آیا وہ پہن لیا۔ وللہ الحمد
کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ باطنی اعتبار سے دنیا سمومِ قاتلہ، اباطیل مفتعلہ، خداعِ کثیر، مصائد و مکائدِ بسیار پر مشتمل ہے اور لوگ اس کی وجہ سے ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں، حسد کرتے ہیں، دشمنی، قطع تعلقی اور انقباض کرتے ہیں۔ دنیا کی خاطر خواہ مقدار مکر و زور اور فریب و دروغ کے بغیر ہاتھ نہیں آتی، اور یہ سب امورِ دین کی جڑ کاٹ دیتے ہیں۔ اس لیے مقدر پر شاکر اور مقدار میسر پر قانع رہنا خیر و برکت کی علامت ہے۔
﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ [1]
ہاں اسراف و تبذیر کو بہت برا جانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مبذرین کو قرآن پاک میں اخوان الشیاطین فرمایا ہے اور اسراف سے منع فرمایا ہے، میانہ روی کا حکم دیا ہے۔ جو شخص اس قاعدہ کا خیال نہیں رکھتا، وہ دنیا و آخرت میں نقصان اُٹھاتا ہے۔ جاہل لوگ اسراف کو جود و سخا سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی غلط فہمی اور شریعت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ جب کسی کی قسمت میں رزق کی فراوانی ہو تو غیب سے
|