اے صبا سوختگاں برسرِ رہ منتظر اند
کردہِ عزم سفر لطفِ خدا یار تو باد
ہیچ زاں یارِ سفر کردہ پیامے داری
ہمتِ اہل نظر قافلہ سالارِ تو باد
الحمدللہ میں نے اس طولِ تعب میں اللہ کے سوا کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا، نہ کسی طرح کی اعانت چاہی۔ انسان جب اپنی مصیبت کو اللہ کی طرف پھیرتا ہے اور غیر اللہ کو اس سے مطلع نہیں کرتا تو وہ مصیبت بہت جلد دُور ہو جاتی ہے۔ حالتِ عبودیت بھی اسی کی مقتضی ہے کہ عبد غیر کے روبرو نہیں بلکہ صرف آقا کے سامنے تضرع کرے ؎
قَالُوْا اَتَشْكُوْا اِلَيْهِ
مَا لَيْسَ يَخْفٰي عَلَيْهِ
فَقُلْتُ رَبِّيْ يَرْضٰي
ذُلَّ الْعَبِيْدِ اِلَيْهِ
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے میری سرشت میں یہ رکھا ہے کہ ہر شخص خصوصاً کمینے آدمیوں کے منت کش ہونے سے گریز کرتا ہوں ؎
برائے نعمتِ دنیا کہ خاک برسرِ آں
منہ زمنتِ ہر سفلہ بار بر گردن
بیک د دروز ردو نعمتش زدست ولے
بماندت ابدالدہر عار بر گردن
کھانے میں زہر:
ابتدائے عقدِ نکاح کے زمانہ میں مجھے اور رئیسہ کو طعامِ چاشت میں زہر دیا گیا تھا۔ عین تناولِ غذا کی حالت میں مجھے اور انہیں قے اور
|