Maktaba Wahhabi

251 - 384
دست شروع ہو گئے۔ایک دو دن تک بالکل بے خبری رہی، تیسرے دن جب تقدیر الٰہی سے سب مادہ سمیت خارج ہو گیا، تب ہوش آیا اور علاج بھی خزانہ غیب سے ہوا ؎ در قتل ما نکرد کمی انتظارِ تو کوتاہی کہ بود ز عمرِ دراز بود لوگوں نے اس توہم کے دفع کرنے کے لیے باتیں بنائیں اور قاتلِ کی طرف سے خیال کو پھیر دیا۔ لیکن حقیقت حال مخفی نہ رہی ؎ تَمنی رجال ان اموت وان امت فتلک سبیل لست فیھا باَوحدٖ مجھے معلوم ہے کہ کس نے زہر دیا اور کس لیے دلوایا۔ لیکن اس کا اظہار مصلحت کے خلاف ہے۔ امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتل سے درگزر کی تھی۔ اسی طرح مرزا مظہر جانجاناں رحمہ اللہ نے بھی اپنا خون بہا معاف کر دیا تھا۔ بات در حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ظرف اور طبیعت کے مطابق کام کرتا ہے۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جب قابو پاتے ہیں تو دشمن سے بھی درگزر کر جاتے ہیں۔ جس طرح بحمدہٖ تعالیٰ میں نے کیا اور کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ذرا سی بھی قدرت ملے تو محسن کشی کو ثواب عظیم سمجھتے ہیں ؎ ملکنا فکان العفومنا سجیۃً فلما ملکتم سال بالدم ابطحٗ اور فارسی شاعر نے کہا ؎
Flag Counter