علیحدگی کے باوجود مصائب کا ہجوم:
میں بلا قصد و نیت، شادی اور اولاد کی وجہ سے یہاں کا متوطن ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جرم کے بغیر کوئی شخص مجرم نہیں ٹھہرتا۔ اگر ریاست سے میرا تعلق ختم ہو جائے گا۔ تو میں مجرد رعیت بن کر یہاں رہ سکتا ہوں۔ لہٰذا اپنے گھر میں گوشہ گزیں رہوں گا۔ جس طرح کہ عام لوگ رہتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ علیٰحدگی کے باوجود مصیبتوں اور آزمائشوں کے تیروں کا ہدف بنایا جاؤں گا۔ اور بغیر جرم کے عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ مجرم اور عاصی قرار دیا جاؤں گا۔ اب جو اس بلا میں پھنس گیا ہوں اور نقل مکانی کرنا چاہتا ہوں تو کوئی درست تدبیر سمجھ میں نہیں آتی ہے، چاروناچار تقدیر پر صبر کر رہا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے جملہ شرور سے محفوظ رکھے گا۔ حتیٰ کہ میری دلی تمنا برآئے اور مجھے ہجرت کی توفیق مل جائے ؎
ماگزشتیم ز بھوپال تو دلشاد نشیں
قفل بردر مزن و خار بدیوار منہ
یہ نہیں ہو سکتا:
میں نے یہاں کے سخت لوگوں سے بڑی ظاہری و باطنی تکلیف اٹھائی ہے اور مجھ لاغر کی طرف سے انہیں کوئی آزار نہیں پہنچا، جس کسی امر کو اُنہوں نے میری طرف سے سمجھا ہے۔ میں نفس الامر میں اس سے بری ہوں اور اس بات پر مباہلہ کرنے کو بھی تیار ہوں ؎
|