بهذة الصفات))
بھی صرف ان اوصاف سے متصف حضرات کی اختیار کرنی چاہیے۔‘‘
طلبِ آخرت:
اگرچہ میرے پاس دنیا میں بہت ہے۔ لیکن بچپن سے لے کر اب تک دنیا میرا بڑا مقصد نہیں ہے بلکہ میں آخرت کو رأس المال اور دنیا کو صرف نفع تصور کرتا ہوں۔ اگر ہست غم نیست و اگر نیست غم نیست
عمریکہ بفکر تنگدستی گزرد
یادر غمِ نیستی و ہستی گزرد
اوقات چنیں قابلِ ہشیاری نیست
آں بہ کہ بہ بیخودی و مستی گزرد
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ سوال اور گدائی کی ذلت سے بچنے رہنے کی دعا کرتا رہتا ہوں:
((اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّهٗ بِئْسَ الضَّجِيْعُ))
’’اے اللہ! میں بھوک سے پناہ مانگتا ہوں کیونکہ وہ بہت برا ساتھی ہے۔‘‘
اور اپنے نفس میں قناعت کی ہمت بھی پاتا ہوں
قناعت تونگر کند مرد را
خبر کن حریصِ جہان گرد را
میں نے اہل دنیا کی طرح طلبِ معاش میں جفاکشی اور استغراق وقت کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ان لوگوں کی طرح دنیا کا جویا ہوں جو دنیا کو رأس المال اور آخرت کو نفع تصور کرتے ہیں اور عملِ آخرت و علمِ دین سے بالکلیہ
|