مِنْ اَصَابِعِ اللّٰهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَآءُ)) (ترمذی و ابن ماجہ)
’’دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یوں ہے:
((مثَلُ القلبِ كريشةٍ بأرضٍ فَلاةٍ يقلِّبُها الرِّيَاحُ ظهرًا لبطنٍ)) (رواہ احمد)
’’دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جو کسی صحرائی زمین پر پڑا ہو اور ہوائیں اسے زمین پر الٹتی پلٹتی ہوں۔‘‘
بہرحال انسان کے دل میں شیطان کی طرف سے بڑا وسوسہ یہی القاءِ کفر اور حُبِّ دنیا ہوتا ہے۔ یہ حُب ہر خطا کی جڑ ہے۔ محبتِ غیراللہ ہی کفر و ضلالت کی ساری باتوں کا سرچشمہ ہے۔ اگر کسی کے دل میں دنیا کی محبت نہ ہو اور دنیا ہجوم کر کے اس کے پاس آئے اور وہ دنیا کے ایندھن کو اللہ کی مرضیات کے حصول میں صَرف کرتا رہے تو ایسا شخص دنیا دار نہ ہو گا۔ بلکہ فقر مدقع پر اسے ایک طرح کی فضیلت حاصل ہو گی۔
وَلِكُلِّ مَقَامٍ رِجَالٌ۔ وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِّمَا خُلِقَ لَهٗ
رنج و راحت:
میں اپنے کسی قول، فعل اور حالِ نفس کا استحسان نہیں کرتا بلکہ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ میں حقوقِ خدا کو پورا نہیں کر سکتا، بلکہ عاجز ہوں اور نہ میں وقت سے قبل اپنی قسمت سے زیادہ کا طالب ہوتا ہوں۔ اہل معرفت نے فرمایا ہے:
((مِنْ اَشَدِّ الْعَذَابِ عَليٰ النَّفْسِ طَلَبُهَا مَالَمْ يُقْسَمْ
|