لَهَا))
’’نفس کے لیے سب سے بڑا عذاب یہ بھی ہے کہ وہ اس چیز کو طلب کرے جو اِس کی قسمت میں نہیں۔‘‘
اور میں نے ساری زندگی کبھی کسی کے سامنے کسی حاجت کے لیے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ کیونکہ اس حرکتِ بے برکت کی بنیاد جہل باللہ، ضعفِ ایمان اور قلت صبر پر ہے۔ اور پھر، اگر مانگنا ہی ہے تو اللہ سے مانگنا کافی ہے
از خدا خواہم و از غیر نخواہم بخدا
کہ نیم بندہ دیگر نہ خدائے دگرست
اگر اللہ تعالیٰ نے سوال کو قبول فرما لیا تو فبہا ورنہ اجابت میں تاخیر لائق تکدر نہیں بلکہ امیدوار رہنا واجب ہے۔
مجھے اپنے دوامِ نعمت پر بھی طمانیت حاصل نہیں رہتی، اس لیے کہ میں نعمت کا بالکل مستحق نہیں ہوں۔ میں رات دن دوسرے لوگوں میں نعمتوں کے تحویل و تغیر کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور جلد یا بدیر ہر صاحبِ نعمت کو تنغض کے حصول سے خالی نہیں پاتا
غلط است ایں کہ ہمہ اہل ددل بی دردند
ہرکر ادیدم ازیں طائفہ آزاری داشت
اللہ سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ نزولِ بلا کے وقت صبر کی توفیق بخشے گا، اور بلا کو جلد ختم کر دے گا۔ ایک نعمت بے بدل ہے۔ اسی مومنِ صادق پر آلام و مصائب کی کثرت ہوتی ہے، جسے اللہ دوست رکھتا ہے
در جہاں آفتے گزندے نیست
کہ بتحویل درد مندے نیست
اہل تجربہ نے کہا ہے
((ومن صبر عليٰ بلاء الدنيا جن
|