کہ جس کی تقریر، تحریر سنی، دیکھی اور بظاہر چست و درست اور برجست نظر آئی، اسی کی طرف جھک گیا۔ بلکہ اپنے فکر سے کام لیتا ہوں، اور مختلف اقوال و مذاہب کو کتاب و سنت کی میزان میں تول کر جائزہ لیتا ہوں۔ جو موافق ہو اسے قبول کرتا ہوں اور جو تاویل بعید یا توجیہ ضعیف ہو اس کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اس کا قائل بہت بڑا عالم یا شیخ ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ حق ہی سب سے بڑا اور عظیم ہے اور ہمارا طریقہ کتاب و سنت کا پابند ہے۔ جس طرح کہ جنید رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: طَرِيقتنا هٰذه مشيدة بالكتٰب والسّنة
اور تمام مشائخ، علمائے سلف اور متبعین خلف کا یہی قول اور حال تھا
سرورِ خاطرِ احباب زائر از رائے ست
من و تفرجِ باغِ محدّثاں تنہا
علوم و فنون میں مہارت:
مجھے علومِ دین کی جملہ انواع سے ایک طرح کی مناسبتِ طبعی حاصل ہے۔ اور میں علم کی فقط کسی خاص نوع کا ذائقہ گیر نہیں ہوں
من كل شيء لذيذٍا احتسي قدحاً وكل ناطقة في الكون يطربني
’’نصب الذریعہ‘‘ میں جتنے علوم شرعیہ کا میں نے ذکر کیا ہے، ان سب میں مہارتِ ضروری اور فہم کفائی رکھتا ہوں۔ اگرچہ میرا زیادہ تر شغف علمِ تفسیر، شروحِ حدیث اور متونِ حدیث سے ہے۔ فقہ سنت کو ویسا ہی جانتا، سمجھتا ہوں جس طرح مقلدین اپنے مذاہب کی فقہ کو سمجھتے ہیں، اور ان کے علماء مذہب حنفی، شافعی کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔ احکام و مسائل کے دریافت کرنے کے لیے میں اپنے دین میں کسی عالم کا محتاج نہیں ہوں۔ بلکہ عبادات، معاملات اور اخرویات کے
|