Maktaba Wahhabi

191 - 384
آخرت میں لوگ چار طرح کے ہوں گے، فائزین، ناجین، معذبین اور ہالکین، ان کی تفصیل رسالہ ’’توزیع العباد‘‘ میں لکھ دی گئی ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو اگر زمرہ ناجین میں محشور کیا جائے تو غنیمتِ باردہ (نہایت خوشی کی بات) ہے۔ اگر معذبین میں مبعوث ہوں تو عدل ہے، ورنہ اس حالتِ راہنہ کے پیش نظر ہلاک ہونا نقدِ وقت، اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن فائزین تو کجا اِن کی گردِ راہ کو بھی پہنچنا محال نظر آتا ہے۔ خَتَمَ اللّٰهُ لَنَا بِالْحُسْنٰي گناہ سے نفرت: میں گناہ کر کے کبھی اپنے جی میں خوش نہیں ہوتا، بلکہ میرا جی یہ چاہا کرتا ہے کہ مجھ سے کوئی صغیرہ گناہ بھی سرزد نہ ہو، لیکن یہ بات محال ہے۔ جب مجھ سے کوئی نیک کام بن پڑتا ہے، تو اپنے جی میں نہایت خوش ہوتا ہوں، اگرچہ اس کی قبولیت کا علم نہیں، لیکن نیکی کے عمل سے خوش ہونا اور گناہ سے استغفار کرنا ایمان کی ایک علامت ہے۔ بعض لوگ گناہ کرنے کے لیے کسی قولِ فقیہ یا روایتِ ضعیف کو حجت ٹھہراتے ہیں یا کسی حیلہ و تاویل سے اسے جائز بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ: ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ ہے۔ گناہ کا گناہ سمجھ کر سرزد ہو جانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ گناہ کو گناہ نہ سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب ہو۔ شرک و کفر ایسا گناہ ہے جس میں جہالت، جبر یا تاویل مقبول نہیں ہوتی اور نہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کو معاف فرمائے گا اِلا یہ کہ توبہ کر لی جائے۔ باقی گناہوں میں گنجائش ہے کہ جہالت کی معذرت قبول ہو بلکہ اللہ چاہے تو بطورِ خرقِ عادت
Flag Counter