پھر ہماری کیا ہستی ہے کہ ہم شغلِ منحوس کے فراق اور لفظ مخترع کے سقوط کو کوئی آفت و بلا سمجھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان بہت زیادہ ہے کہ ہم تو آتش کے لائق تھے۔ لیکن اس نے ہم سے راکھ پر صلح کر لی اور سچ پوچھو تو یہ خفت، آفت ہمارے ضعفِ ایمان اور قلبِ ایقان کی وجہ سے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارا مرتبہ بلند ہوتا تو کبھی اس حالت کذائی کو ہمارے لیے کافی نہ سمجھا جاتا۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ:
’’مومن دین میں مضبوطی اور کمزوری کے مطابق آزمایا جاتا ہے، اگر مضبوط ہو تو آزمائش شدید اور کمزور ہو تو آزمائش خفیف ہوتی ہے۔‘‘
یہ تو اللہ کا شکر بجا لانے کا مقام ہے کہ اس نے اس کثرتِ معاصی کے باوجود مجھے کوئی سخت سزا نہیں دی۔ ہجوم ذنوب کے باوصف پردہ پوشی کی اور ہمیں اعدائے نا فرجام کے طعن و ملامت کے تیروں کا ہدف نہ بنایا بلکہ اس حَیْص بَیْص کے ساتھ اس عزت و آبرو سے اب تک اپنے ظلِّ حمایت میں امن و امان کے ساتھ چھوڑ رکھا ہے۔ وللہ الحمد
علاماتِ عالم ربانی:
اقامتِ بھوپال کے زمانہ میں میں نے کتبِ صحاح و سنن پر کافی عبور حاصل کر لیا تھا اور زرِ کثیر صرف کرنے کے بعد فقہِ سنت اور تفسیر کی بہت سی کتابیں حجاز، یمن، بصرہ اور دیگر ممالک سے منگوا کر جمع کر لی تھیں۔ اسی جگہ مولوی عبدالقیوم فرزند مولوی عبدالحی مرحوم سے بھی ملاقات ہوئی، ان کے باپ اور میرے باپ ایک ہی شیخ یعنی سید احمد بریلوی رحمہ اللہ کے مرید تھے۔ انہی کے والد مرحوم مولوی عبدالحی رحمہ اللہ صاحب سب سے پہلے ہندوستان میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ کا رسالہ ’’الدرر البههيه مع
|