ہیں۔ اکثر شہروں میں عرصہ دراز سے میت کے مال کی وراثت کی شرعی حصص کے مطابق تقسیم دیکھنے سننے میں نہیں آ رہی، حقوقِ اقرباء کے غصب و اتلاف کے لیے بھی ہزار حیلے نکالے جاتے ہیں۔ اور اجنبیوں سے جلبِ منفعت کے لیے تو صدہا مکر و فریب اور کذب کی صورتیں عمل میں آ چکی ہیں۔
﴿ظَهَرَ ٱلْفَسَادُ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى ٱلنَّاسِ﴾ [1]
من زوضعِ زمانہ در فکرم
کہ مبادا ازیں بتر گردد
نسب قابلِ فخر نہیں:
مجھے نہ اپنے نسب پر فخر و اعتماد ہے نہ اپنے حسب و جاہ کا کچھ اعتقاد اور نہ اپنے علم پر مباہات۔ بلکہ مجھے خوب معلوم ہے کہ اگر میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا بلا واسطہ فرزند بھی ہوتا تو ثواب و عتاب میں تمام امت ہی کی طرح ہوتا اور اگر حسب میں کسی امامِ مجتہد یا کسی بادشاہِ مستعد کا بیٹا ہوتا تو اس بات کو بھی میری اخروی نجات میں کوئی دخل نہ ہوتا۔ کیونکہ اللہ کے نزدیک شرافت و امارت کا نہیں بلکہ تقویٰ و طہارت کا اعتبار ہے۔ شرافت و امارت پر انحصار کے خیالِ خام میں ایک دنیا ہلاک ہو گئی۔ اگر میں کسی کا غلام ہوں، اور دنیا میں میری کچھ آبرو نہ ہو، مگر اللہ کا بندہ مسلمان بن جاؤں تو میرے نزدیک یہ ہزار حسب و نسب سے بہتر ہے
حسن ز بصرہ بلال از حبش صہیب ز روم
ز خاکِ مکہ ابو جہل ایں چہ بو العجبی ست
ہاں جب کوئی نسیب حسیب نسبِ علی و حسبِ جَلی کے مالک لوگوں کا سا کام بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کریم کے مطابق اسے عزت و نجات
|