بلکہ ایک غلام ہوں جس سے کام لیا جاتا ہے۔ میں کیا اور میری تالیفات کیا، اور میرا سلیقہ کیا۔ اگر یہ خدمت قبول ہو گئی تو زہے سعادت ورنہ
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اَللّٰهُمَّ اَحْيِنَا مُسْلِمِيْنَ وَاَمِتْنَا مُسْلِمِيْنَ
شرفِ قبولیت:
اختلاف لغات کے باوجود میری تمام تصنیفات اطراف و اکنافِ عالم خصوصاً بلادِ حجاز و عرب و مغرب وغیرہ میں میری زندگی میں ہی شرفِ قبولیت سے نوازی گئی ہیں۔ ہندوستان کے بعض لوگوں کے سوا کسی نے ان کی تردید میں کچھ نہیں لکھا اور ہندوستان کے جن لوگوں نے مخالفت کی ہے وہ بھی معاصرت، اتحادِ وطن اور تحاسدِ باطن کے باعث ہے۔ میں اِس امر پر بھی خدا کے حضور سجدہ تشکر بجا لاتا ہوں۔ اس لیے کہ سلف نے کہا ہے کہ:
((لَا بُدَّ لِكُلِّ فَقِيْهٍ مِنْ سَفِيْهٍ يَنْقُصُهٗ))
’’ہر فقیہ کا کسی نہ کسی بےوقوف سے لازماً سامنا ہوتا ہے جو اس کی تنقیص کرتا ہے۔‘‘
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اشیاء کی شناخت اضداد ہی سے ہوا کرتی ہے۔ کون ایسا عالم، امام یا درویش گزرا ہے، جس کا کوئی حاسد نہ ہو، علماء اُمت اور مشائخِ ملت کو جانے دو۔ خود کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ہر دور میں دشمن تو رہے ہیں۔ کسی نے قرآن کا معارضہ کیا، کسی نے قرآن کو غیر معجز بتایا، کسی نے صفات، برزخ اور حشر و نشر کی آیات و احادیث میں صدہا شبہات نکالے، کسی نے کتاب و سنت میں تناقض کا دعویٰ کیا اور کسی نے قرآن کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض کیا اور اب تک ایسے لوگ موجود ہیں جو کتاب و
|