ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ نقل مذکور صحیح اور اصل کے مطابق ہو۔ ابوابِ شرع میں سے شاید ہی کوئی ایسا باب ہو جس میں میں نے کوئی مستقل رسالہ یا کتاب نہ لکھی ہو، تفسیر حدیث، فقہ، علومِ آخرت، عقائد، تاریخ اور نحو وغیرہ کون سا موضوع ہے جس پر میں نے قلم نہیں اُٹھایا۔ اور پھر ہر رسالہ ادلہ صحیحہ کے ساتھ مزین ہے۔ ایسی کوئی کتاب نہیں جو کتاب و سنت کے دلائل مع تخریج سے خالی ہو۔ یہ بات تالیفاتِ معاصرین میں نایاب ہے۔
اس زمانہ میں اکثر طرزِ تصنیف یہ ہے کہ چند معروف کتبِ فقہ سے اقوال و حکایات اور قیل و قال بغیر دلیل کے نقل کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے اور اسے بڑی تحقیق سمجھا جاتا ہے۔ پھر اگر کسی قول کو ترجیح بھی دی جاتی ہے تو دلیل کی رُو سے نہیں، بلکہ انہی روایاتِ فقہ کی رُو سے۔ یہ طریق ان لوگوں کا ہے جو علومِ اصول سے آگاہ نہیں ہیں۔ استدلال کا ملکہ نہیں رکھتے اور کیفیتِ استدلال و استنباط کو نہیں پہچانتے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اصولِ علم پر کافی عبور بخشا ہو۔ وہ ہرگز اس خساءت و دناءت کو اپنے لیے پسند نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں ادلہ کتاب و سنت کی جو کثرت تنقیح و توضیح کے ساتھ میرے رسائل و کتب میں ہے۔ معاصرین کی تالیفات میں اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ بلکہ اکثر رسائل میں ابواب و فصول کے ذیل میں آیات کا استقراء کیا گیا ہے بلکہ ایک دلیل کا دوسری کے ساتھ باہمی ربط بھی بیان کیا گیا ہے جیسا کہ کتب فقہ سنت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی ثابت ہو گی۔ فارسی اور اردو میں بعض رسائل دو دو چار کاپی تک ایک ہی حدیث کی شرح میں لکھے گئے ہیں۔ مثلاً شرح حدیث ’’حلاوۃ الایمان‘‘ شرح ’’حدیث ولی‘‘ اور شرح حدیث ’’ بُني الإسلام على خمس‘‘ وغیرہ۔
یہ سب افاضہ مبداء فیاض کی طرف سے ہے، کیونکہ میں کوئی مختار عامل نہیں
|