اگر اللہ تعالیٰ کا یہ لطفِ جلی و خفی میرے حال پر نہ ہوتا تو نہ معلوم میرا اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مجھ پر اور میری اولاد پر واجب ہے کہ اس نعمت کا تہِ دل سے شکر بجا لایا کریں۔ اور بار بار ﴿ مَا شَآءَ ٱللَّـهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِٱللَّـهِ﴾ [1] کہا کریں۔ کیونکہ اس کلمہ مبارک کو ابقاءِ نعمت میں بڑا اثر ہے۔ اور اہل علم نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ شکر کرنا صیدِ مزید قیدِ عبید ہوتا ہے۔ اور ناشکری مزیلِ نعمت و جالبِ نقمت ہوتی ہے۔ عیاذاً باللہ تعالیٰ!
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں احسان فرمائے اور فرمایا کہ:
﴿ فَأَمَّا ٱلْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ﴿٩﴾ وَأَمَّا ٱلسَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ ﴿١٠﴾ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١﴾﴾ [2]
’’پس تو یتیم پر ستم نہ کر۔ اور مانگنے والے کو مت ڈانٹ۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو بیان کر۔‘‘
مذکورہ تین احسانات کے عوض اللہ تعالیٰ نے یہ تین حکم ارشاد کئے ہیں۔ اگرچہ مقدارِ واجب سے عہدہ برآ ہونے سے قاصر ہوں تاہم بحمداللہ کسی قدر ان سہ امور کا خیال کرتا ہوں۔
شیخ کامل کی پہچان:
شیخ کا کمال اور تکمیل اسی میں منحصر نہیں کہ اس سے خرقِ عادت کا ظہور ہو، خواطر پر اشراف رکھتا ہو، یا وجد و حال و شوق میں رہتا ہو۔ کیونکہ اس قسم کے افعال تو جوگی، فلسفی اور برہمن لوگوں سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ امورِ شعادت بشر کی دلیل بھی نہیں، لہٰذا کامل اور مکمل شیخ وہ ہے جو ظاہرِ شریعت پر مستقیم اور کتاب و سنت پر عامل ہو۔ تاکہ اس پر متقی کا اطلاق ہو
|