اس وضوحِ حق کے بعد اللہ سے درخواست یہ ہے کہ اس نعمت کا اتمام فرمائے۔ یعنی خاتمہ بھی ہدایت پر ہو، کیونکہ جب تک ایمان پر مرنا نصیب نہ ہو گا، دل پریشان رہے گا
وَكَيْفَ تَنَامُ الْعَيْنُ وَهْيَ قَرِيْرَةٌ
وَلَمْ تَدْرِنِيْ اَيِّ الْمَحَلَّيْنِ تَنْزِلٗ
﴿ اَللّٰهُمَّ اَنْتَ اَنْتَ وَاَنَا اَنَا فَافْعَلْ مَا اَنْتَ اَهْلُهٗ وَلَا تَفْعَلْ بِيْ مَا اَنَا اَهْلُهٗ فِاِنِّيْ اِذًا لَّمِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ [1]
میں عائل تھا، معاش بہت کم تھی، والدہ مرحومہ، ہرسہ ہمشیرگان اور ان کے ازواج، خدام اور میری اولاد کا سب کا نفقہ میرے ذمہ تھا۔ رزاق مطلق نے ان کی ظاہری کفالت کا ذمہ مجھ سے متعلق کر رکھا تھا۔ حالانکہ مجھے معاش پیدا کرنے کا بالکل سلیقہ نہ تھا اور نہ اب تک ہے۔ جو تنخواہ ملتی تھی، اسی سے گزر اوقات کرتا تھا۔ اِدھر فکرِ آزدقہ (روزی) تھی۔ اُدھر اندیشہِ عقبیٰ، جان عجب کشمکش میں گرفتار تھی
گہے تلاشِ معاش ست و گاہ فکرِ معاد
مصیبتے دو جہاں برسرِ دل افتاد ست
ناگہاں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا سبب پیدا فرمایا جو بسط کا باعث ہوا۔ جملہ متعلقین کو وسعت و آسودگی حاصل ہو گئی۔ عیال کا بار میرے ذمہ سے جاتا رہا۔ بے منتِ خلق مجھے اور انہیں بسہولت رزق حاصل ہوا۔ رئیسہ عالیہ نے ہر بچے کو علیحدہ جاگیر عنایت فرما دی۔ میں ان کی طرف سے بالکل بے فکر ہو گیا۔ اور ﴿ وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَأَغْنَىٰ﴾ کا مضمون ظاہر ہوا۔ وللہ الحمد!
|