واپس آئیں اور اِس اثناء میں انہیں میرے خاندان کے حالات، مراتب اور احترام و اعزاز سے کچھ واقفیت حاصل ہوئی تو انہوں نے مراعات میں بہت کچھ اضافہ فرما دیا۔ سفرِ آگرہ کے وقت جب ان کا گزر قنوج سے ہوا تو بندہ نے انہیں ضیافت قبول فرمانے کی زحمت دی، طعام تو اُنہوں نے قیام گاہ پر طلب کر کے تناول فرمایا، البتہ میرے گھر آ کر والدہ محترمہ اور ہمشیرگان کی خدمت میں درہم و دینار پیش فرمائے، اور وفات تک کمال عزت و محبت سے پیش آتی رہیں۔
﴿وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ﴾ [1]
میں اِس شہر میں چونتیس (34) برس سے سکونت پذیر ہوں۔ جب تک اس ظاہری اوج موج پر فائز نہ تھا جسے اکالین بطالین دنیوی عروج سمجھتے ہیں۔ لیکن میں اسے دینی زوال سے تعبیر کرتا ہوں۔ اکثر لوگ میرے ساتھ کوئی حسد یا دشمنی نہیں رکھتے تھے۔ اِس لیے کہ انہیں کوئی امتیازی وصف مجھ میں نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اب جب کہ اٹھارہ سال سے مجھے اپنے اقران و اماثل پر ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔ اندرونی طور پر بازارِ حسد گرم ہو گیا ہے، چونکہ حاسدوں کی سب سرگرمیاں خفیہ تھیں۔ اس لیے مجھے ان کے حسد و بغض سے لاعلمی رہی۔ کیونکہ میں کسی شخص کا حق تلف کر کے اس مرتبہ و منصب پر نہ پہنچا تھا۔ اور نہ میری گزران کسی کے ساتھ حسد و عداوت یا نفرت پر مبنی تھی۔ اس لیے میں کسی کی طرف سے دشمنی کا خیال تک نہ کر سکتا تھا۔ میں تو ہمیشہ سے بے پرواہ، غافل مزاج تھا، غفلت میں رہا، اور سب کے ساتھ مدارات و مواسات کرتا رہا۔ اور یہ لوگ دَر پردہ میری خرابی کے لیے تدابیر کرتے رہے۔ اکثر لوگ دین و دنیا کے بارے میں مجھ پر حاسد تھے۔ لیکن جب انہیں دست اندازی کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔ بجز خفیہ سوچوں کے تو اُنہوں نے کبھی زہر دینے کی کوشش کی،
|