طلبِ رزق میں ہمیشہ ’’اجمال‘‘ ہی کو اپنے لیے پسند کیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رزق کی بارش کر دی ہے۔
((لا غني لي عن بركتك))
’’تیری برکت سے میں بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
میں نے بھوپال کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ ایک محمدی نامی نواڑ باف جو کہ عطاری کا پیشہ کرتا تھا اور والد مرحوم کا مرید تھا۔ وہ میرے اِس طرف کے سفر کا محرک ہوا، وہی میرے ہمراہ آیا۔ چونکہ میرا رزق اسی جگہ مقدر تھا۔ لہٰذا اسی جگہ قیام ہو گیا۔ حدیثِ ابو درداء رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے:
اِنَّ الرِّزْقَ لَيَطْلُبُ الْعَبْدَ كَمَا يَطْلُبُهٗ اَجَلُهٗ (رواه ابو نعيم في الحلية)
’’رزق بندے کو ایسے ہی تلاش کرتا ہے جیسے موت۔‘‘
ملازمت کے پندرہ سال:
میں نے اس ریاست میں رمضان 1271ھ سے لے کر 1285ھ کے اواخر تک مکمل پندرہ سال رئیسہ مرحومہ کی ملازمت کی۔ اگرچہ وہ مرحومہ نہایت تیز مزاج، دُرشت خو، بے مروّت اور سخت گو تھیں۔ لیکن انہوں نے مجھ پر کبھی کوئی سختی، درشتی یا جرمانہ وغیرہ نہیں کیا۔ میں بھی اوقاتِ حاضری اور خدمت کی بجا آوری کی نہایت پابندی کیا کرتا تھا اور ان کے غصہ سے خائف رہتا تھا۔ پہلے انہوں نے مجھے آستانہ خاص کا منشی مقرر کیا تھا۔ چھ ماہ بعد قائم مقام میر منشی ریاست کر دیا، پھر مجھ سے بھوپال کی تاریخ نگاری اور پھر قانونِ ریاست کی ترتیب کا کام لیتی رہیں۔ تعظیم کے لیے سرِ دربار سر و قد کھڑی ہو جایا کرتی تھیں اور ملاقات کے وقت سلام کی ابتداء خود کیا کرتی تھیں۔ جس زمانہ میں قنوج سے ہو کر
|