بقدرِ وسعتِ مشرب بہر کس جرعہِ دادند
تو در پیمانہ مَے داری و من خون در جگر دارم
اللہ تعالیٰ نے جو دنیا کو مبغوض و ملعون قرار دیا ہے تو بجا ہے، بیشک دنیا ایسی ہی جگہ ہے۔ دنیا دار ہمیشہ اہل دین کے دشمن ہوتے ہیں۔ نکاحِ ثانی کی عداوت اور امور سلطنت میں میری مدد دہی اس زہر کا باعث تھا۔ جب یہ تدبیر بھی کارآمد نہ ہوئی تو پھر اہل نفاق کا افتراء پردازیوں پر اتفاق ہو گیا اور حکام کو ہمارے خلاف برہم کر کے جو کچھ کیا کیا ؎
ابنائے زماں در پئے ہر شور و شراند
اپنا شتہِ نفاق و عین ضرر اند
مانند قطار شتر ایں فرقہ دوں
بایکدگر اند و در پئے یکدگر اند
حالانکہ جب سے میں اس گھر میں آیا ہوں، کبھی اپنے رسوخ، نفاذِ حکم اور ترقی منصب کا اندیشہ نہیں کیا۔ میرے اوقات ہی یہ تھے کہ کام کے وقت کچہری میں بیٹھتا تھا۔ لیل و نہار کی باقی گھڑیوں کو علم و تالیف کے شغل میں صرف کرتا۔ ہر شخص سے تواضع سے پیش آیا، ہر کسی کی مداراتِ عرنی بجا لایا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو ’’احد من الناس‘‘ ہی جانا۔ کیونکہ اہل تجربہ نے کہا ہے ؎
ان تلقک الغربۃ فی معشر
قد اجمعوا فیک علیٰ بغضھم
فدارھم ما دمت فی دارھم
و ارضھم ما دمت فی ارضھم
لیکن بات دراصل یہ ہے کہ اس مرزبوم کے لوگ شروع سے اس امر کے عادی ہیں کہ ان پر رئیس کی طرف سے ہمیشہ قہر، زجر، جرمانہ اور معزولی کی بارش برستی رہے، تب کہیں راہِ راست پر رہتے ہیں ؎
|