اسی سے تو دلِ بیتاب ٹھیک رہتا ہے
جو تجھ کو باندھ کے زلفِ سیاہ میں رکھے
رئیسہ حال کے عہد سعادت مہد میں ان کے رحم و کرم اور عفو کے سبب عقوبت معاصی سے تجاوز ہونے لگے۔ کور نمک لوگوں نے اس نعمتِ خداداد کی کچھ قدر نہ جانی، ہر کسی کو شر و فساد کا حوصلہ بڑھ گیا۔ احسانِ کریم، شیطانِ رجیم کے طغیان کا موجب ہو گیا ؎
خبیث را چو تعہد کنی و بنوازی
بدولتِ تو گنہ میکند بانبازی
حکمتِ سعدی میں لکھا ہے کہ:
’’رحم آوردن بربداں، ستم ست برنیکاں و عفو کردن از ظالماں جو رست بردر ویشاں۔‘‘ ؎
نکوئی بابداں کردن چنا نست
کہ بد کردن بجائے نیک مرداں
اور عربی شاعر نے کہا ہے ؎
ومن یصنع المعروف فی غیر اھلہٖ
یُلاقی کما لاتٰی مجیرُ ام عامر
فقل لذَوی المعروف ھٰذا جزاءً من
یجود بمعروف علیٰ غیر شاکر
ان میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے، جو اپنے آپ کو اہل علم و دین خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ دین سے کوسوں دور ہیں اور محض شکم و شرمگاہ کے بندے، خواہشات کے پجاری، دینار و درہم کے غلام، فسق و فجور کے پرستار اور زور و شرور کے منبع ہیں ؎
|