اس کے سامان جمع ہو جاتے ہیں۔انسان کتنا ہی کیوں نہ بھاگے، وہ دولت اسے مل کر رہتی ہے۔ اور اگر تقدیر میں تنگی عیش ہو تو خواہ آسمان و زمین کے سارے طبقے ملا ڈالے، ایک درہم ہاتھ نہیں آتا۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیلائے، اور سنن صحیحہ کے بموجب ہمیشہ اول خویش بعدہ درویش اپنا نصب العین بنائے رکھے
ابے حکمِ شرع آب خوردن خطا ست
دگر خوں بفتوی بریزی روا ست
میں اگر صاحب اہل و عیال نہ ہوتا، یا میرے اہل و عیال تدبیرِ منزل اور تحصیل رزق میں میرے محتاج نہ ہوتے تو میں اپنے آپ کو بالکل زاہد و قانع پاتا ہوں۔ تاہم حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیثِ مرفوع خاطرِ شکستہ کے لیے باعثِ تسلی ہے۔
((الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلاَلِ وَلاَ إِضَاعَةِ الْمَالِ وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لاَ تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَىِ اللَّهِ ۔۔۔الحديث)) (الترمذی و ابن ماجہ)
’’دنیا میں زہد، حلال کو حرام قرار دینا یا مال کو ضائع کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا میں زہد تو یہ ہے کہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھوں میں ہے اس چیز کی بہ نسبت جو خدا کے ہاتھ میں ہے، زیادہ اعتماد نہ کرو۔‘‘
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((عَجَباً لأمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ لَهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَلِكَ لأِحَدٍ إِلاَّ للْمُؤْمِن: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ
|