احوال الاٰخرة))
’’مخلوق کے ذریعے حاجات پوری کرانے کا ایک آسان ترین راستہ یہ ہے کہ انہیں ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے جس کی نگاہیں صرف دنیا پر لگی ہوئی ہیں خواہ وہ کوئی عام شخص ہو یا حاکم وغیرہ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ لوگ آخرت کے احوال سے بالکل حجاب میں ہوتے ہیں۔‘‘
اہل باطن کا تجربہ ہے کہ جو شخص مخلوق کے مطلع ہونے سے قبل اپنی مصیبت کا اظہار اپنے خالق کے سامنے کرتا ہے وہ بلا جلد دور ہو جاتی ہے۔ مجھے بھی اس کا تجربہ ہوا ہے۔ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا سَاَلْتَ فَاسْئَلِ اللّٰهَ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ)) (احمد و ترمذی)
’’جب سوال کرو تو اللہ سے اور جب مدد مانگو تو اللہ سے۔‘‘
اور یہی معنی ہیں اس آیت شریفہ کے:
﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [1]
’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
عام لوگوں کا دستور یہ ہے کہ کسی ضرورت یا مصیبت کے وقت ہر حشیش و خسیس اور نفیس سے ملتجی ہوتے ہیں۔ خواہ دین و دنیا کی آبرو سلامت رہے یا دست برد ذلت ہو جائے۔ لیکن مجھ پر جب کبھی غم و الم اور تفکر کا ہجوم ہوتا ہے تو اپنے آپ کو سب تدابیر میں عاجز پا کر، اللہ ہی سے فریاد رسی کرتا ہوں۔ نہ کسی سے زیادہ اظہارِ شکوۃ و شکایت کرتا ہوں اور نہ کسی سے حفاظت و حمایت چاہتا ہوں۔ بلکہ اپنی تقدیر پر رضا مند رہتا ہوں۔ یعنی حتی الامکان ورنہ رضا بالقضا ہم جیسے کم ہمتوں کا کام نہیں، یہ مقام تو صدیقین کا ہے لیکن بحکم
برمن منگر برکرم خویش نگر
اللہ تعالیٰ مجھ جیسے نالائق، عاصی، عاجز کو ذلیل نہیں کرتا۔ ہر بلا و ابتلاء سے
|