اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ لوگ تو بہت ہیں لیکن اچھے کم ؎
آنچہ پر جستیم و کم دیدیم و بسیار ست و نیست
نیست جز انسان دریں عالم کہ بسیار ست و نیست
حدیثِ مرداس اسلمی میں فرمایا ہے:
((يَذْهَبُ الصَّالحُونَ الأوَّلُ فالأولُ، وتَبْقَى حُثَالَةٌ كحُثَالَةِ الشِّعِيرِ أوْ التَّمْرِ، لاَ يُبالِيهمُ اللَّه بالَةً)) (رواہ البخاری)
’’نیک لوگ ایک ایک کر کے چلے جائیں گے اور جو کی بھوسی یا کھجور کے چھلکے کی طرح کے لوگ (نکمے اور ناکارہ) رہ جائیں گے جن کی اللہ کو کوئی پرواہ نہ ہو گی۔‘‘
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ:
((يَرِثُ دُنّيَاكُمْ شِرَارُكُمْ)) (رواہ الترمذی)
’’شریر لوگ تمہاری دنیا کے وارث نہ ہو جائیں۔‘‘
انہی سے مروی دوسری مرفوع حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكُونَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُكَعُ ابْنُ لُكَعٍ)) (رواه الترمذي والبيهقي في دلائل النبوة)
’’اِس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ لئیم بن لئیم دنیوی طور پر سب سے زیادہ سعادت مند نہ ہو جائے۔‘‘
لکع بن لکع سے لئیم بن لئیم مراد ہے یا وہ ذلیل النفس جس کی اصل معلوم نہ ہو۔ اور اس کا خلق اچھا نہ ہو، سو اس زمانہ میں اس قسم کے لوگ رہ گئے ہیں، یہ زمانہ اہل اسلام کے صبر کرنے کا ہے، اگرچہ یہ صبر سخت تلخ ہے۔ حدیث انس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
|