بڑھ کر اس شغل میں مشغول ہوں کیونکہ جب میں کام کرتا تھا۔ اس وقت ایک ثلث یا اس سے بھی زیادہ وقت اشغالِ دنیا میں صرف ہوتا تھا۔ اب جب سے فارغ ہوں، اللہ تعالیٰ نے ضائع ہونے والے اوقات کا نعم البدل عطا فرمایا ہے اور ﴿ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا﴾ [1] کا مضمون سمجھا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے داعی ہوں کہ میری عمر کے آخر کو عمر کا بہترین حصہ کر دے اور حفظِ ایمان کے ساتھ اس جہان ناپائیدار سے دار القرار کی طرف لے جائے
ایماں چو سلامت بلبِ گور بریم
احسنت بریں چستی و چالاکیِ ما
بےوقوف لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں ان عوارض کی وجہ سے مجھے ایک طرح کی خفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ بات نہیں کیونکہ میں نے خانہ نشینی و گوشہ گزینی کے سوا یک قلم سب سے راہ و رسمِ حیات و ممات ترک کر دی ہے اور اس حادثہ میں اللہ کے سوا مجھے کسی سے توقع نہیں اور نہ ہی کسی سے التجاء و دستگیری ظاہر کی، پھر خفت کیسی؟ ورنہ بڑے بڑے عالی حوصلہ ایسے وقت میں ہر خسیس و حشیش سے تعلق استوار کرنے لگتے ہیں اور متزلزل ہو کر غیراللہ سے استعانت و استمداد کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سوال، التجاء اور استمداد وغیرہ کی ذلت سے بالکل محفوظ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ اب وہی لوگ پھر منافقانہ طور پر میری طرف التجاء لاتے ہیں۔ اور جب میں انہیں اپنے پاس آنے نہیں دیتا کیونکہ:
((لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَيْنِ))
’’مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘
تو ادنیٰ سے ادنیٰ شاگرد یا خادم کی خوشامد درآمد کر کے مجھ تک اپنی منفعت کے لیے پیغام و سلامِ خیر سگالی و بہی خواہی بھیجتے ہیں۔ اور میں ان کی آواز پر
|