صنعاء کے پرانے خط میں، اور کتاب اعلام الاعلام بفضائل بیت اللہ الحرام اور دو تین دوسری کتابیں ادب و لغت وغیرہ کی بیروت اور جرمنی وغیرہ کی چھپی ہوئی بعض اہل علم و فضیلت کے ہاں سے ملیں۔ ؎
ایں ہم غنیمت است کہ عمرت دراز باد
اس شہر اور اہل شہر کا ملاحظہ بہت عبرت آموز رہا۔ نیز ان لوگوں کی وضع قطع حسرت کا باعث بنی۔ اس شہر کے تمام باشندے یعنی دولت مند اہل قلم، عہدیدار، تجارت پیشہ، مسجدوں کے صالحین، مقاماتِ مقدسہ کے حاجی، مدارس کے علماء، دفاتر کے حکام، سرکاری ملازمین، عام خلقت و رعایا، مال کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، خواہ وہ حیلے بہانے سے ہو، خواہ اصرار سے، خواہ ترکِ حیا سے ہو، خواہ غیر واقع حاجت نمائی سے، ان کو اس کے حلال و حرام کی کوئی فکر نہیں۔ عاقبت کی باز پرس سے غافل ہیں۔ دولت حاصل کرنے میں پوری طرح ہوشیار و چالاک، دین و ملت سے بے پروا، برطانیہ کے معززین کی تقریبات میں شوق سے شرکت کرنا، عورتوں مردوں کا اختلاط، محض اسلام کے نام پر قناعت، حکام کی سیرت کی نقال وغیرہ وغیرہ مما لا یلایم ملۃ الاسلام ان کا شعار ہو چکا ہے۔ سوائے اس کے جسے اللہ نے محفوظ رکھا۔ ان کا ظاہری حال اس بات کا شاہد ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں دین کا نام اور لفظ بھی ان کے لیے ننگ و عار کا باعث ہو گا، اور وہ اسلام کی غلامی کا پٹہ یکدم اپنی گردن سے اتار پھینکیں گے۔ یہ لمبی لمبی چار دیواریاں، یہ مکانات کی آرائش، یہ زمین کی تحسین اور زمانے کی رنگا رنگی اور دیگر نشانیاں قیامت کے آثار و علامات ہی کہی جا سکتی ہیں،
|