مقریزی رحمہ اللہ نے کتاب ’’المواعظ والاعتبار‘‘ میں عذر مذکور لکھ کر اپنی پریشانی کا حال یوں بیان کیا ہے:
((لا سيما وَالخاطر بالافكار مشغول والعزم لالتوآء الاُمور و تعسرها فاتر محلول والذهن من خطوب هٰذا الزمن القطوب كليل والقلب لتوالي المحن و تواتر الاحن عليل))
’’خصوصاً جب کہ دل افکار میں مشغول ہے، عزم امور کے التواء اور مشکل ہونے کی وجہ سے پریشان ہے، ذہن اس پرفتن زمانے کے حوادث کی وجہ سے مضمحل ہے اور دل آلام و مصائب کے پے در پے نزول کی وجہ سے بیمار ہے۔
يُعاندُني دهري كاني عدوه
وفي كل يوم بالكريهة يلقاني
فان رمت شيئًا جآءني منه ضِده
وان راق لي يومًا تكدر في الثاني
پھر لکھا ہے:
((اللهم غفرًا ما هٰذا من التبرم بالقضآء ولا التفجر بالمقدور بل انه سقيمٍ و نفثة مصدورٍ يستروحُ ان ابدَي التوجع والانين ويجد خفًّا من ثقله اذا باح بالشكوٰي والحنين))
’’اے اللہ! مغفرت فرما! یہ قضا پر تنگ دلی اور مقدور پر بے چینی نہیں ہے بلکہ یہ تو بیمار کا کراہنا اور سینہ کے مریض کا تھوکنا ہے۔ وہ (مریض) درد اور کراہنے کے اظہار سے آرام پاتا ہے، اور جب وہ کھل کر شکوہ و شکایت اور گریہ و زاری کا اظہار کرتا ہے تو اسے اپنے بوجھ میں قدرے تخفیف محسوس ہوتی ہے۔‘‘
ولو نظروا بين الجوانح والحشا
راوا من كتاب الحب في كبدي سطرًا
ولو جربوا ما قد لقيت من الهٰوي
اذًا عذروني او جعلت لهم عذرًا
|