Maktaba Wahhabi

271 - 384
ہوتی تو انہیں بہت کچھ اجر حاصل ہوتا۔ لیکن افسوس تو یہ کہ ان کی بنیاد ’’عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ‘‘ ہے، اور ان کا تعلق مجرد حمیتِ جاہلیت اور عصبیت و نفسانیت سے ہے، اس لیے ان اعتراضات کا نفسِ مسائل سے بہت کم تعلق ہے، اکثر مواخذات لا طائل ہیں۔ اس کے باوجود میں جانتا ہوں ؎ ہیچ نفسِ بشر خالی از خطا نبود اگر یہ بات نہ ہو تو پھر خالق و مخلوق کے کلام میں کیا فرق رہ جائے ؎ مجھے یہ ڈر ہے کہ ایمان لے نہ آئیں لوگ خدا کرے غلطی کچھ میرے سخن میں رہے مثل مشہور ہے کہ: اَلْفَاضِلُ مَنْ عُدَّتْ سَقَطَاتُهٗ وَاُحْرِزَتْ مُلْتَقَطَاتُهٗ سعدی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ: ’’متکلم را تا کسے عیب نہ گیرد سخنش صلاح نہ پذیرد‘‘ ؎ مشو غرہ برحسنِ گفتارِ خویش بتحسینِ نادان د پندارِ خویش الغرض اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں کسی کلام میں خطا نہ کروں، تو اسے بشر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اہل تجربہ نے کہا ہے: ((اَيُّ جَوَادٍ وَاِنْ عَنَّقَ مَا يَكْبُوْ وَاَيُّ عَضْبٍ مُهَنَّدٍ لَا يَكَلُّ وَلَا يَنْبُوْ)) ’’کون سا تیز رفتار گھوڑا ہے جو گردن اٹھا کر رکھنے کے باوجود کبھی منہ کے بل نہ گرتا ہو، اور کون سی تیز ہندی تلوار ہے جو کبھی کند نہ ہوتی ہو اور کبھی کاٹنے میں ناکام نہ ہوتی ہو۔‘‘
Flag Counter